رسائی کے لنکس

سرینگر کے اسپتال میں فائرنگ، مبینہ پاکستانی قیدی فرار


فائرنگ کے واقعے کے فوراً بعد سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے احاطے کا ایک منظر
فائرنگ کے واقعے کے فوراً بعد سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے احاطے کا ایک منظر

پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسپتال میں قیدی کے انتظار میں بیٹھے اس کے مبینہ مسلح ساتھیوں نے بھی فائرنگ کی اور افراتفری کے دوران نوید اور اس کے ساتھی فرار ہو گئے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے ایک اسپتال میں فائرنگ کے بعد ایک مبینہ پاکستانی قیدی فرار ہو گیا ہے جب کہ دو پولیس اہل کار مارے گئے ہیں۔

بھارتی حکام کے مطابق پاکستانی قیدی کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ سے تھا جسے منگل کو طبعی معائنے کے لیے کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال لے جایا گیا تھا۔

لیکن اسپتال کے احاطے میں داخل ہوتے ہی وہاں پہلے سے موجود دو سے تین نامعلوم مسلح افراد نے قیدی کے ساتھ موجود پولیس اہل کاروں پر گولی چلادی اور قیدی کو لے کر فرار ہوگئے۔

مسلح افراد کی فائرنگ سے پولیس کا ایک اہل کار موقعے ہی پر ہلاک ہو گیا جبکہ اُس کا زخمی ساتھی اسپتال میں دورانِ علاج دم توڑ گیا۔ ہلاک ہونے والے ایک پولیس اہل کار کی شناخت ہیڈ کانسٹیبل مشتاق احمد کے نام سے ہوئی ہے۔ جب کہ دوسے سپاہی کا نام بابر احمد خان بتایا گیا ہے۔

سرینگر میں لشکرِ طیبہ کا مبینہ کارکن پولیس کی حراست سے فرار
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:04 0:00

ایک پولیس افسر نے دعویٰ کیا تھا کہ قیدی نے خود ایک پولیس اہل کار سے اُس کی بندوق چھین کر اپنے محافظ پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کی۔

تاہم شام کو پولیس کے ایک اعلیٰ افسر ڈی آئی جی (وسطی کشمیر) غلام حسن بٹ نے اس اطلاع کی ترديد کی کہ نوید نے پولیس اہل کار کی بندوق چھین لی اور پھر اس سے فائرنگ کی۔ پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسپتال کے احاطے میں موجود بندوق برداروں نے گولی چلائی اور پھر افرا تفری کی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نوید کو اپنے ساتھ لے گئے۔

فائرنگ کے نتیجے میں سرینگر کے سری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال (ایس ایم ایچ ایس) میں افراتفری مچ گئی جس کے دوران پاکستانی قیدی اور اُسے چھڑانے والے مبینہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

پولیس اور نیم فوجی دستوں نے واقعے کے بعد علاقے میں آپریشن شروع کردیا ہے جبکہ پوری شورش زدہ وادئ کشمیر میں ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ لشکرِ طیبہ کے وسیم گروپ سے وابستہ مبینہ پاکستانی عسکریت پسند نوید جھٹ عرف ابو حنظلہ کو پانچ دوسرے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کی ہدایت پر طبعی معائنے کے لیے سرینگر کی مرکزی جیل سے ایس ایم ایچ ایس اسپتال لے جایا گیا تھا۔

ذرائع کے بقول ابتدائی تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ نوید کو دو کلو وزنی ہتھکڑیاں پہنائی گئیں تھیں لیکن اس کے باوجود اُس نے ایک پولیس اہل کار کی کاربن رائفل چھین لی اور پھر اس سے فائرنگ کی۔

پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسپتال میں قیدی کے انتظار میں بیٹھے اس کے مبینہ مسلح ساتھیوں نے بھی فائرنگ کی اور افراتفری کے دوران نوید اور اس کے ساتھی فرار ہوگئے۔

تاہم سرینگر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز اسماعیل پَرے نے بتایا ہے کہ طبعی معائنے کے لیے اسپتال لے جائے جانے والے چھ قیدیوں میں سے ایک (نوید) نے ایک پولیس اہل کار کا ہتھیار چھینا اور پھر اُس کے اور اُس کے ساتھیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ اسپتال میں چند ایسے افراد پہلے سے موجود تھے جو غالباً مسلح تھے اور شاید انہوں نے بھی گولی چلائی لیکن ان اطلاعات کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

بھارتی حکام نے بتایا ہے کہ نوید کو بھارتی فوج نے 2015ء میں کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان کے بہی باغ علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ ملزم پر کئی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ریاست کی مختلف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں جن میں 2014ء کے عام انتخابات کے دوراں ایک سرکاری اسکول کے استاد اور پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو قتل کرنے اور شوپیان کے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG