رسائی کے لنکس

سوئٹزرلینڈ: خاتون اساتذہ سے ہاتھ ملانے کا معاملہ زیر بحث


سوئٹزرلینڈ میں شمالی سوئس کی تھیرویل نامی بلدیہ کے ایک اسکول کی طرف سے بعض مسلمان مرد طلبہ کو اختیار دیا گیا ہےکہ اگر وہ چاہیں تو اپنی خاتون اساتذہ سے مصافحہ نا کریں

سوئٹزرلینڈ کے ایک اسکول نے کہا ہے کہ اس کے مسلمان طلبہ کو اب خاتون اساتذہ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں ہو گی اور یہ فیصلہ مسلمان طلبہ کی سماجی ضروریات کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں شمالی سوئس کی تھیرویل نامی بلدیہ کے ایک اسکول کی طرف سے بعض مسلمان مرد طلبہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی خاتون اساتذہ سے مصافحہ نا کریں تاہم حکام کے اس متنازع فیصلے سے ملک بھر میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سوئس صوبے بازل کنٹری میں تھیرویل بلدیہ کے ایک اسکول کو یہ فیصلہ اسوقت کرنا پڑا جب اس کے دو طالب علموں نے یہ شکایت کی کہ انھیں سوئس روایات کے مطابق اپنے اساتذہ اور خاتون اسٹاف سے مصافحہ کرنا پڑتا ہے جب کہ مسلمان طلبہ کا کہنا تھا کہ خواتین سے ہاتھ ملانا ان کے مذہبی عقائد کےخلاف ہے۔

طلبہ کی طرف سے اس سلسلے میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ اسلام مسلمان مرد کو محرم خواتین کے سوائے کسی دوسری خاتون کے ساتھ جسمانی رابطے کی اجازت نہیں ہے۔

سوئس ذرائع ابلاغ کے مطابق حکام کے اس فیصلے کےحوالے سے سوئٹزرلینڈ میں ایک احتجاج کی لہر شروع ہو گئی ہے ایک طرف تو مقامی تھیرویل کونسل کی جانب سے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی گئی ہے جبکہ دوسری جانب سوئس اساتذہ کی انجمن بھی اس فیصلے سے متفق نہیں ہے۔

سائنس تعلیم اور ثقافت پر پارلیمانی کمیشن کے سربراہ فیلکس میوری نے فیصلے کی مخالفت کی ہے جن کا کہنا تھا کہ 'مصافحہ کرنا ہماری سوئس ثقافت کا ایک حصہ ہے'۔

انھوں نے ٹوئنٹی منٹ نامی نیوز ویب سائٹ سے کہا کہ مصافحہ کرنا دوسروں کے لیے احترام ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے اور اسے اچھے آداب کی ایک نشانی سمجھا جاتا ہے۔

دریں اثناء سوئٹزرلینڈ میں چھوٹے انتظامی صوبوں جنھیں 'کینٹن' کہا جاتا ہے۔ ان تمام انتظامی یونٹوں کے وزرائے تعلیم کی قومی کانفرنس کے سربراہ کرسٹوف آئمان نے کہا کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے ہیں کہ عوامی شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین کے ساتھ مردوں سے الگ طرح کا برتاؤ کیا جائے ۔

تھیرویل بلدیہ کے اسکول کے نظام کی انچارج کرسٹین آکیرٹ نے ذرائع ابلاغ سے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئین نہیں ہیں لیکن انھیں اس شکایت کے حوالے کوئی دوسرا حل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

کرسٹین آکیرٹ کا کہنا تھا کہ جب کوئی ہماری طرز زندگی اپنانے سے انکار کرتا ہے تو یہ ایک بڑی پریشانی بن جاتی ہے۔

تاہم انھوں نے شکایت کی کہ انھیں آس پاس کے صوبوں کی طرف سے اسوقت کوئی حمایت حاصل نہیں ہوئی تھی جب انھوں نے وہاں کے حکام کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق صوبہ بازل کنٹری کے حکام جن کے پاس تھیرویل کے اسکول کے فیصلے کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے ان کی طرف سے ذرائع کو فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG