رسائی کے لنکس

شام: حمص میں پُر تشدد کارروائی تیز، عرب مبصر گروپ بھیجا جائے


شام: حمص میں پُر تشدد کارروائی تیز، عرب مبصر گروپ بھیجا جائے
شام: حمص میں پُر تشدد کارروائی تیز، عرب مبصر گروپ بھیجا جائے

شام میں دائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فوجیوں نے حمص کے وسطی شہر میں منحرفین کے خلاف پُر تشدد کارروائی کو تیز تر کر دیا ہے

شام کے ایک جلاوطن اپوزیشن راہنما نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک نیا مبصر مشن حمص کے وسطی شہر کی طرف روانہ کریں جہاں دائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فوجیوں نے منحرفین کے خلاف پُر تشدد کارروائی کو تیز تر کر دیا ہے۔

اتوار کونشر ہونے والے ایک وِڈیو پیغام میں شام کی قومی کونسل کے راہنما برہان غلیون نے کہا کہ مبصرین کو حمص کے مضافات میں تعینات کیا جائے جسکا سکیورٹی فورسز نے محاصرہ کیا ہوا ہے، مثلاً بابا امر۔ جمعرات کے روز عرب مبصرین کا ایک نو رکنی پیشگی گروپ دمشق پہنچ چکا ہے تاکہ وہ بالآخر شام میں تقریباً 150مبصرین کی تعیناتی کے بارے میں راہ ہموار کر سکے۔ پچاس مبصرین پر مشتمل مبصرین کا ایک گروپ پیر کو پہنچنے والا ہے۔

شام نے 22رکنی عرب لیگ کے دباؤ کے تحت اِس مبصر مشن کی آمد پر اتفاق کیا ہے، جو اس بات کا خواہاں ہے کہ حکومت نو ماہ سے جاری جمہوریت نواز سرکشی کو کچلنے کی اپنی مہلک کارروائی کو بند کرنے کےلیگ کے مطالبے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

شام کے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ مبصرین کی تعیناتی سے قبل صدر بشار الاسد کے وفادارفوجیوں نے حمص میں مزاحمتی مراکز پر اپنی پُر تشدد کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق شام کے حالات کا مشاہدہ کرنے والی آبزویٹری نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ گولہ باری اور فائر کھولنے کےحملوں کے واقعات میں اتوار کے دِن حمص میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔

اُس نے بتایا ہے کہ دیر ازور کے شمال مشرقی قصبے میں حکومتی فوج نے تین افراد کو ہلاک کیا۔

لندن میں قائم آبزرویٹری کے ترجمان مصاب ازاوی نے بتایا کہ شامی فوج کے ہیلی کاپٹر حمص پر پرواز کر رہے ہیں تاکہ سیٹلائٹ فونز کے ذریعے سرگرم کارکنوں کی طرف سے کریک ڈاؤن کے بارے میں دی جانے والی خبروں کے سگنلز کا پتا چلایا جاسکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حالیہ دِنوں کے دوران حمص کے کئی مضافات کاسیٹلائٹ فونز سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

تاہم، آزاد ذرائع سے شام میں ہلاکتوں کے بارے میں تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حکومت بین الاقوامی صحافیوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

XS
SM
MD
LG