رسائی کے لنکس

شام: نئے آئین کے لیے ووٹنگ جاری، ہلاکتوں کی تعداد31ہوگئی


مسٹر اسد کے خلاف مظاہرہ
مسٹر اسد کے خلاف مظاہرہ

مجوزہ نئی دستاویز کی رُو سے شام میں کثیر جماعتی نظام تشکیل دیا جائے گا، جب کہ 1963ء کے انقلاب سے لے کر اب تک ملک کی باگ ڈور فی الواقع صرف و صرف بعث پارٹی نے سنبھالی ہوئی ہے

اتوار کے دِن ملک بھر میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم از کم 31 شامی سویلین اور فوجی ہلاک ہوئے، ایسے میں جب ایک نئے آئین کے لیے رائے دہی جاری ہے، جِس کا اپوزیشن اور متعدد مغربی طاقتیں خوب مذاق اُڑا رہی ہیں۔

مجوزہ نئی دستاویز کی رُو سے شام میں کثیر جماعتی نظام تشکیل دیا جائے گا، جب کہ 1963ء کے انقلاب سے لے کر اب تک ملک کی باگ ڈور فی الواقع صرف و صرف بعث پارٹی نے سنبھالی ہوئی ہے، تاہم وسیع تر اختیارات صدر بشار الاسد کے ہاتھوں میں ہی ہیں۔

حزب مخالف کا کہنا ہے کہ مجوزہ تبدیلیاں محض ایک دکھاوا ہے، اور یہ کہ 11ماہ سے جاری حکومت مخالف بغاوت کو کچلنے کے لیے کی جانی والی پُر تشدد کارروائیوں کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ مسٹر اسد اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔ دو اہم مخالف گروپوں، یعنی’ شامی قومی کونسل‘ اور ’نیشنل کوآرڈنیشن باڈی فور ڈیموکریٹک چینج اِن سیریا‘ نے ووٹنگ کے بائکاٹ کی کال دے رکھی ہے۔

اتوار کی پولنگ شروع ہونے پر، سرگرم گروہوں نے بتایا کہ احتجاجی مظاہروں کے مرکز حمص میں فوجی گولہ باری سے نو شہری ہلاک ہوئے، جب کہ شہر میں باغی لڑاکوں نے چار فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ شام کے باقی علاقوں میں ہونے والے واقعات کے دوران آٹھ سویلین اور 10سکیورٹی فورس کے اہل کار ہلاک ہوئے۔

جرمن وزیر خارجہ گائدو ویسٹرویل نے شام کے ریفرینڈم کو ایک ’ڈھونگ’ قرار دیا ہے، جب کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کاروبار اور فوج سے وابستہ شامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مسٹر اسد کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔

XS
SM
MD
LG