رسائی کے لنکس

شام میں خوراک کی شديد قلت کا خطرہ


حلب کے نزدیک شام کے ایک کیمپ میں ایک پناہ گزیں امدادی خوراک کھا رہا ہے۔ 5 نومبر 2016
حلب کے نزدیک شام کے ایک کیمپ میں ایک پناہ گزیں امدادی خوراک کھا رہا ہے۔ 5 نومبر 2016

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 میں اوسطاً 34 لاکھ ٹن کے مقابلے میں اس سال پیداوار 15 لاکھ ٹن ہوئی، جو کہ 55 فی صدر کمی ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں فصلوں کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے خوراک کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت اور خوراک کے عالمی پروگرام کے اداروں کو ایک مشترکہ مطالعاتی جائزے سے پتا چلا ہے کہ پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران کاشت کاروں کے پاس کاشت کے لیے بہت کم زمین دستیاب تھی۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے شام میں خوراک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی ذمہ داری ملک کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی شورش اور غیر موافق موسمی حالات پر ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال مسلسل جاری رہنے سے زمینوں، زرعی اجناس کی فراہمی اور منڈیوں کو نقصان پہنچا اور کاشت کاروں کے لیے اپنی گذر بسر کرنا مشکل ہوگیا۔

ملک بھر میں 2015 اور 2016 کے درمیان زرعی زمینوں کے کیے گئے جائزوں سے پتا چلا ہے کہ اس دوران کم ترین پیداوار حاصل ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال کاشت کاروں نے 9 لاکھ ہیکٹر رقبے پر گندم کی کاشت کی تھی، جو کہ بحران شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں کاشت کی جانے والی گندم کا نصف ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 میں اوسطاً 34 لاکھ ٹن کے مقابلے میں اس سال پیداوار 15 لاکھ ٹن ہوئی، جو کہ 55 فی صدر کمی ہے۔

خوراک کے عالمی پروگرام کی ترجمان بٹینا لسچر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام پر پانچ سالہ خانہ جنگی کا بہت زیادہ اثر ہوا ہے۔ جنگ سے پہلے شام ایک ایسا ملک تھا جو اپنے عوام کو خوراک مہیا کر سکتا تھا۔ اور اب 70 لاکھ ایسے لوگ ہیں جنہیں یہ علم نہیں ہے کہ ان کے لیے اگلے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا۔

خوراک کا عالمی ادارہ اس وقت شام میں ہر مہینے 40 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کررہا ہے لیکن ایسے بہت سے ضرورت مند لوگ موجود ہیں جن تک خوراک نہیں پہنچ رہی۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت شام میں 94 لاکھ افراد کو خوراک کی ضرورت ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس وقت شام میں پہلے کے مقابلے میں مویشیوں کی تعداد 30 فی صد کم ہے، بھیڑیں 40 فی صد اور مرغیاں 60 فی صد تک کم ہیں، جو خانہ جنگی سے پہلے ملک میں حیوانی پروٹین کے حصول کا قابل استطاعت ذریعہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ افراط زر کی شرح بلندیوں کی طرف جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں شام کی کرنسی کی قدر نمایاں طور پر گر چکی ہے۔ مویشی پالنے والے بہت سے خاندان اب ان کی ضروريات پوری کرنے کے قابل نہیں رہے اور وہ اپنی بھیڑوں، بکریوں اور مرغیوں کو ذبح کر رہے ہیں.

XS
SM
MD
LG