رسائی کے لنکس

گولان پہاڑیوں کے قریب باغیوں کے ٹھکانوں پر شام کا قبضہ


شام کے فوجی گولان کی پہاڑیوں کے قریب باغیوں کے مورچوں پر قبضے کے بعد اپنا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ 17 جولائی 2018
شام کے فوجی گولان کی پہاڑیوں کے قریب باغیوں کے مورچوں پر قبضے کے بعد اپنا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ 17 جولائی 2018

شام کے سرکاری میڈیا نے کہا ہےصدر بشار الاسد کی وفادار فورسز نے ملک کے جنوب مغرب میں باغیوں کے ٹھکانوں کے خلاف اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے فوجی اہمیت کی ایک چوٹی تل الحارہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جہاں سے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی چوٹیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ سرکاری فورسز کی اس پیش قدمی کے بعد ملک میں سات سال سے جاری خانہ جنگی اب اسرائیل کی دہلیز کے قریب پہنچ گئی ہے جس سے علاقائی کشیدگی میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے اپنی فوٹیج میں سرکاری فورسز کو اس علاقے میں سب سے اونچی چوٹی پر قومی جھنڈا لہراتے ہوئے دکھایا ہے جہاں سے 1974 کی حدبندی لائن اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان ہائٹس نظر آتی ہیں۔ تل الحارہ کی چوٹی، جو سطح سمندر سے 1100 میٹر بلند ہے، 2014 سے جبہتہ النصر گروپ کے کنٹرول میں چلی آ رہی تھی۔ اس چوٹی پر سے اردن اور اسرائیل کے الجلیل کے علاقے دکھائی دیتے ہیں۔

ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ سرکاری فوجی جبہتہ النصر کے استعمال میں رہنے والے زیر زمین بینکرز کے سامنے کھڑے ہیں۔ کنکریٹ کے تختوں اور سیمنٹ کے ٹوٹے ہوئے حصوں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ میزائلوں نے کس مقام پر ان بینکروں کو نشانہ بنایا تھا۔

تل الحارہ کے قریب واقع قصبوں المال اور تل المار کے رہائشیوں نے شام کے فوجیوں کی آمد پر خیرمقدمی نعرے لگائے۔

ایک سرکاری تجزیہ کار محمد داہر نے دعویٰ کیا کہ دونوں قصبوں کے رہائشیوں نے عسکریت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا ہے تا کہ وہ جان اور مال کے تحفظ کے لیے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر سکیں۔

حال ہی میں آزاد ہونے والے قصبے المال کے لوگوں نے شکایت کی ایک قریبی قصبہ ابھی تک باغیوں کے کنٹرول میں ہے اور وہ وہاں سے رات بھر ان پر راکٹ فائر کرتے ہیں جس سے ان کے گھروں اور بہت سی گاڑیوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔

ایک بوڑھی خاتون کا کہنا تھا کہ گولے گرنے اور دھماکوں کی آوازوں سے وہ رات بھر سو نہیں سکی۔ ہر چیز کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے توقع ہے کہ یہ مشکل گھڑیاں بھی جلد کٹ جائیں گی۔

امریکن یونیورسٹی بیروت میں پولیٹیکل سائنس کے ایک پروفیسر ہلال خاشان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ، روس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے ایک حصے کے طور پر شام کی فورسز کو گولان ہائٹس کے قریب واقع دیہات اور قصبے کا قبضہ واپس لینے کی اجازت دے گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں اپنی موجودگی گھٹانے کے لیے ایران پر ان تینوں ملکوں کا دباؤ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی شام کی تعریف کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 40 سال سے زیادہ عرصے کے دوران شام نے ہم پر ایک گولہ بھی نہیں پھینکا۔

اسرائیل نے بھی حالیہ مہینوں میں شام کے اندر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا فورسز کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے ہیں جس میں اتوار کے روزالنیرب ایئر بیس پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے ۔ یہ فضائی مرکز حلب کے باہر واقع ہے ۔ حملے میں کئی ایران نواز جنگجو مارے گئے تھے۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی کے پچھلے ہفتے روسی صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد شام کی حکومت اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ولایتی نے کہا تھا کہ اگر ایران مداخلت نہ کرتا تو داعش کے جنگجو دمشق اور بغداد کو ڈھیر کر چکے ہوتے ۔ شام کے سرکاری روزنامے الوطن نے ولایتی کے اس عویٰ سے اختلاف کیا ہے جو تہران سے برہمی کا ایک شاذ ونادر اشارہ ہے۔

XS
SM
MD
LG