رسائی کے لنکس

شام میں عام معافی کے سرکاری پروگرام پرعملدرآمد شروع


شام میں عام معافی کے سرکاری پروگرام پرعملدرآمد شروع
شام میں عام معافی کے سرکاری پروگرام پرعملدرآمد شروع

شام میں ہتھیار رکھنے یا پھر اُنھیں فروخت کرنے والے شہریوں کو معافی دینے کے منصوبے پر عملدر آمد شروع کر دیا گیا ہے جو ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔

وزارت داخلہ نے جمعہ کو عام معافی دینے کے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اسی روز مظاہرین نے کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کر کے کم از کم 19 افراد کو ہلاک کر دیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جن شہریوں نے کوئی قتل نہیں کیا وہ جوں ہی ہتھیاروں سمیت اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کریں گے اُنھییں منصوبے کے تحت معافی دے کر فوری طور پر رہا کر دیا جائے گا۔

لیکن امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے شام کے شہریوں کو اپنے آپ کو حکام کے حوالے نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

جمعہ کو ایک نیوز بریفینگ سے خطب کرتے ہوئے اُنھیں نے شام کی حکومت کے اُس عزم پر بھی سوال اٹھایا جو اس نے عرب لیگ کے بدھ کو طے پانے والے منصوبے کے بعد کیا جس میں تشدد فوری طور پر روک کر حکومت اور مخالفین کے درمیان بات چیت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

فرانس نے بھی شام کے وعدوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جمعہ کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ حکام کی طرف سے جاری مظالم کے پیش نظر امن منصوبے کے نفاذ کے بارے میں دمشق کے’’خلوص‘‘ پر بین الاقوامی شکوک شبہات کو تقویت ملے گی۔

مظاہرین کا کہنا ہے جمعہ کو احتجاج کے دوران ہونے والی ہلاکتیں زیادہ تر دمشق اور مرکزی حمص کے علاقے میں ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کی افواج ٹینکوں پر سوار ہو کر تشدد سے متاثرہ حمص ضلع میں دوبارہ داخل ہوئیں اوراُنھوں نے فائرنگ کر کے کم از کم تین افراد کو ہلاک کر دیا۔

جمعرات کو بھی 12 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری مظاہرین نے حکومت کی حامی فوجوں پر ڈالی تھی۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں 3,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام کی حکومت ’’دہشت گردوں‘‘ اور مسلح افراد کو ملک میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھراتی ہے۔

XS
SM
MD
LG