رسائی کے لنکس

لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ: طالبان کا علماسے مشاورت کے لیے اجلاس بلانے کا فیصلہ


 طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان نےبتایا کہ علما کو 'ذمہ داری' کی گئی ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچیں۔
طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان نےبتایا کہ علما کو 'ذمہ داری' کی گئی ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچیں۔

لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے سے متعلق بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر افغان طالبان نے علما سے مشاورت کے لیے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کے اسکول کھولنے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان نے جمعہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علما کو 'ذمہ داری' کی گئی ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچیں۔

اس سے قبل بدھ کو افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست میں ایک تقریب سے خطاب میں طالبان کے سینئر رہنما انس حقانی نے کہا تھا کہ لڑکیوں کے اسکول کے معاملے کو حل کرنے کے لیے مسلم علما کا اجلاس بلایا جائے گا۔ البتہ انہوں نے اس اجلاس کی حتمی تاریخ سے متعلق کچھ نہیں کہا تھا۔

عزیز احمد رایان نے کہا کہ ''اس معاملے پر عید کے بعد علما کی ملاقاتیں اور مشاورت ہو گی جس کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی اور امید ہے۔ اللہ نے چاہا تو ان ملاقاتوں کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔''

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'سیو دی چلڈرن' کے مطابق 80 فی صد ثانوی اسکولوں کی لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے ثانوی اسکولوں کی 11 لاکھ لڑکیوں میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ طالبات اسکول نہیں جا رہیں۔

واضح رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار میں آکر افغانستان میں خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں جن میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر بھی پابندی شامل تھی۔

البتہ مارچ میں طالبان نے ثانوی اسکولز دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ان اسکولوں کے کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی انہیں دوبارہ بند کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے تھے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل لگ بھگ 90 لاکھ طلبہ میں سے 35 لاکھ کے قریب لڑکیاں اسکول جاتی تھیں۔

سرکاری ملازمتوں اور پارلیمنٹ میں بھی خواتین کو نمائندگی حاصل تھی اور سرکاری محکموں میں 30 فی صد خواتین ملازمین تھیں جب کہ پارلیمنٹ میں اُنہیں 28 فی صد نمائندگی حاصل تھی۔

البتہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں اور شریعت کے مطابق اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سفارتی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے وی او اے کی افغان سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ طالبان لڑکیوں کے ثانوی اسکولز کھولنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ پہلی سے پانچویں جماعت کی طالبات اسکول جا رہی ہیں۔ جامعات کھلی ہوئی ہیں۔ طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے جسے حل کرلیا جائے گا۔ لیکن دوسروں کو اسے سیاسی آلے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔''

لڑکیوں کے ثانوی اسکول دوبارہ کھولنے کے لیے طالبان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ملک بھر میں افغان علما اور سماجی کارکنوں کی جانب سے لڑکیوں کے ثانوی اسکولز کھولنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر، طالبان سے لڑکیوں کے ثانوی اسکولز دوبارہ کھولنے کے معاملے پر بات کر رہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ''ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کو ہر سطح کی تعلیم کی اجازت دینے کے لیے جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کریں اور افغان عوام کے ساتھ اپنے عزم کو پورا کریں۔

XS
SM
MD
LG