رسائی کے لنکس

انسان کو لگائے گئے سور کے دل میں وائرس کی موجودگی کا انکشاف


دنیا کے پہلے انسان میں سور کا دل لگایا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو
دنیا کے پہلے انسان میں سور کا دل لگایا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو

طبی ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کے اس پہلے انسان کی موت کی وجہ کیا تھی جسے سور کا دل لگایا گیا تھا اور اسے طبی تاریخ کا اہم کارنامہ قرار دیا گیا تھا۔ 57 سالہ ڈیوڈ بینٹ دل لگائے جانے کے بعد صرف دو ماہ ہی زندہ رہ سکا تھا۔

اب حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ لگائے جانے والے دل کے ڈی این اے میں ایک وائرس موجود تھا۔ تاہم ابھی اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وہی وائرس ہلاکت خیز انفکشن کا سبب بنا تھا۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ڈیوڈ بینٹ کے جسم میں سور کے جس دل کی پیوند کاری کی گئی تھی اس کے ڈی این اے میں وائرس موجود ہے۔

سائنس دانوں کو اس سے بھی زیادہ تشویش اس چیز پر ہے کہ جانوروں کے اعضا کی انسانوں میں پیوندکاری سے کہیں انسانوں میں نئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو بڑھ نہیں جائے گا۔

دنیا کا پہلا انسان ڈیوڈ بینٹ جس میں سور کے دل کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ یہ سرسرجی میری لینڈ اسکول آف میڈیسن میں کی گئی تھی۔ 12 اپریل 2022
دنیا کا پہلا انسان ڈیوڈ بینٹ جس میں سور کے دل کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ یہ سرسرجی میری لینڈ اسکول آف میڈیسن میں کی گئی تھی۔ 12 اپریل 2022

ڈاکٹر بیرٹلی گرفتھ کہتے ہیں کہ وائرس خوابیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں، یعنی وہ کسی بیماری کا سبب نہیں بن رہے ہوتے لیکن وہ ایک ایسےشخص کی مانند ثابت ہو سکتے ہیں جو دوسروں کی گاڑیوں میں مفت سفر کرتا ہے۔

ڈاکٹر بیرٹلی گرفتھ اس ٹیم میں شامل تھے جس نے بینٹ کے دل کی پیوندکاری کی تھی۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے زنیوٹرانسپلانٹ پروگرام کے سائنٹیفک ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد محی الدین کہتے ہیں کہ اس چیز کے تعین کے لیے کہ آیا سور کے دل میں موجود وائرس ہی انفکشن کا سبب بنا تھا، مزید اور پیچیدہ نوعیت کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

عشروں سے ڈاکٹر جانوروں کے اعضا کی پیوند کاری کے ذریعے انسانی زندگیاں بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک انہیں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ بینٹ جو اپنی بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے تھے اور انہیں انسانی دل لگانا ممکن نہیں رہا تھا، آخری کوشش کے طور پر انہیں ایک ایسے سور کا دل لگایا گیا جس میں جینیاتی طور پر تبدیلی کی گئی تھی تاکہ نئے دل کے خلاف انسان کے قدرتی مدافعتی ردعمل کے خطرے کو ممکنہ حد تک کم کیا جا سکے۔

انسانی جسم کسی دوسرے کے جسمانی اعضا کی پیوند کاری قبول نہیں کرتا اور اسے فوری طور پر کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

بینٹ کے دل کی پیوند کاری کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے اس مقصد کے لیے جس سور کا دل حاصل کیا گیا تھا، وہ صحت مند تھا اور کسی بھی قسم کے انفکشن سے پاک ہونے کی تصدیق کے لیے اس کے تمام ضروری ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کی پرورش جانوروں کو انفکشن سے محفوظ رکھنے کے ایک مرکز میں کی گئی تھی۔

ڈاکٹر گرفتھ بتاتے ہیں کہ ان کا مریض بہت بیمار تھا۔ لیکن ٹرانسپلانٹ سرجری کے بعد اس کی حالت مناسب طور پر بہتری کی جانب بڑھ رہی تھی۔ لیکن ایک صبح جب وہ بیدار ہوئے تو ان کی حالت اچھی نہیں تھی اور انفکشن جیسی علامات ظاہر ہو رہی تھیں۔ ڈاکٹروں نے سبب جانے کے لیے اس کے بہت سے ٹیسٹ کیے اور انہیں کئی طرح کی جراثیم کش ادویات دیں۔ لیکن ان کے سینے میں لگایا جانے والا سور کا دل پھولنے لگا اور اس میں مائع بھرنا شروع ہو گئی اور بالآخر اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر گرفتھ کہتے ہیں کہ اگر اس کا سبب کوئی وائرس تھا تو وہ کیا کر رہا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح انسانی جسم اعضا کی پیوندکاری کا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔ وجوہات جاننے کے لیے ہمارے ٹیسٹ اور تجربات جاری ہیں۔

اس دوران ملک بھر کے دوسرے طبی مراکز میں ڈاکٹر عطیہ کیے گئے انسانی جسموں میں جانوروں کے اعضا کی پیوند کاری پر تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس بارے میں بےچین ہیں کہ انہیں زندہ انسانوں پر تجربات کا موقع کب ملے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ سور کے دل میں وائرس کی موجودگی کا حالیہ انکشاف اس پیش رفت کو کس طرح متاثر کرے گا۔

XS
SM
MD
LG