رسائی کے لنکس

حکومت کا پہلا سال: دہشت گردی میں کمی، سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا


پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

عمران خان کی حکومت اپنا ایک سال مکمل کر چکی ہے اور اس دوران بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق رواں سال اگست کے آغاز تک بھارت نے مبینہ طور پر 76 بار جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے باعث 19 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

پلوامہ حملہ

رواں سال پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت سے کشیدگی کے باعث پاکستان کی زیادہ توجّہ مشرقی سرحد پر مرکوز رہی۔

فروری 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس کے دستے پر ایک خودکش حملہ ہوا جس میں بھارت کے 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

بھارت نے اس حملے کا الزام شدت پسند تنظیم جیشِ محمد پر لگاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں جیشِ محمد کے تربیتی کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا جس کے اگلے روز ہی پاکستان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بعض اہداف کو نشانہ بنانے اور دو بھارتی جنگی جہاز مار گرانے کا دعویٰ کیا۔

ان واقعات کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں جس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس پر دونوں فریقین ایک دوسرے پر سیز فائر کے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں کمی

دہشت گردی کے واقعات کی بات کی جائے تو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی جاری کردہ سکیورٹی سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2019 میں ملک بھر میں دہشت گردی کے 26 واقعات ہوئے جن میں دہشت گردوں سمیت 30 افراد ہلاک جب کہ 69 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 9 سکیورٹی اہلکار 14 اور شہری بھی شامل ہیں۔

رواں سال جنوری میں دہشت گردوں نے بلوچستان میں 11 حملے کیے جب کہ اس دوران خیبر پختونخوا میں بھی 11 حملے ہوئے۔

فروری2019 میں ملک بھر میں 21 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں دہشت گردوں اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت 22 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوئے۔

مارچ میں دہشت گردی کے واقعات میں 26 افراد ہلاک ہوئے جب کہ اپریل کے مہینے میں ان واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا جب 23 حملوں میں 54 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں ہوئے جس میں 40 افراد جان سے گئے۔

مئی میں بھی دہشت گردوں نے بلوچستان کو بناتے ہوئے 12 حملے کیے جن میں 49 افراد مارے گئے۔ اس دوران پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی خودکش حملہ ہوا جس میں 13 شہری ہلاک ہوئے جب کہ مئی میں خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

جون کا مہینہ قدرے بہتر رہا اور بلوچستان خیبر پختونخواہ میں چار چار واقعات رپورٹ ہوئے لیکن جولائی 2019 میں ایک بار پھر بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا اور 20 حملے رپورٹ ہوئے جن میں20 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 37 افراد ہلاک ہوئے۔

علاوہ ازیں حکومت کو اپنے پہلے سال میں قبائلی اضلاع میں پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے چلنے والی تنظیم کی مزاحمت کا بھی سامنا رہا۔

حکومت کی کامیابی یا ناکامی، تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

سکیورٹی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی اس وقت حالات خاصے بہتر تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن کا سامنا پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومتوں کو کرنا پڑا تھا۔

تجزیہ کار عامر رانا کے بقول موجودہ دورِ حکومت میں عمران خان کے لیے حالات کافی سازگار تھے، نیشنل ایکشن پلان موجود تھا اور ان کے ذمّے صرف اس پر عمل کرانا تھا۔

عامر رانا نے کہا کہ بہتر حالات کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر درست طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا گیا اور اس دوران انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی کارکردگی میں بھی کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔

ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2002 سے 2018 تک پاکستان میں 479 خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں 7 ہزار291 شہری جاں بحق ہوئے جب کہ 2002 سے 2019 کے دوران دہشت گردی کی مجموعی کارروائیوں میں 63 ہزار 898 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 22 ہزار 657 شہری، 7 ہزار 127 سکیورٹی اہلکار اور 34 ہزار 114 دہشت گرد شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG