رسائی کے لنکس

تھائی لینڈ کی شہزادی وزارتِ عظمیٰ کی امیدوار


شہزادی ابل رتنا جنہیں حزبِ اختلاف کی جماعت نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ (فائل فوٹو)
شہزادی ابل رتنا جنہیں حزبِ اختلاف کی جماعت نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ (فائل فوٹو)

تھائی لینڈ میں حزبِ اختلاف کی ایک مرکزی سیاسی جماعت نے شاہی خاندان کی ایک اہم رکن کو اپنی جماعت کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔

تھائی لینڈ کا شاہی خاندان ملک کی سیاست اور انتخابی عمل سے دور رہتا ہے اور ایک شہزادی کی جانب سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ ایک غیر متوقع عمل ہے۔

شہزادی ابل رتنا سری ودھانا تھائی لینڈ کے بادشاہ مہا وجیرالونگ کورن کی بڑی بہن ہیں اور انہیں سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شنا وترا کی حامی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت 'تھائی رکسا چارٹ' نے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔

تھائی لینڈ میں 24 مارچ کو ہونے والے عام انتخابات 2014ء میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ یہ بغاوت تھاکسن شیناوترا کی بہن ینگلک شیناوترا کی حکومت کے خلاف ہوئی تھی۔

انتخابات میں شہزادی ابل رتنا کا مقابلہ تھائی لینڈ کے موجودہ وزیرِ اعظم پرائتھ چان اوچا سے ہوگا جنہوں نے بطور آرمی چیف 2014ء کی فوجی بغاوت کی قیادت کی تھی۔

تھائی لینڈ میں 1932ء سے آئینی بادشاہت ہے جس کے تحت گو کہ بادشاہ کی حیثیت علامتی ہے، لیکن شاہی خاندان کی عام افراد میں بہت عزت اور مرتبہ ہے اور انہیں معاشرے میں خاصا اثر و رسوخ حاصل ہے۔

تھائی رکسا پارٹی کے رہنما بینکاک میں ایک پریس کانفرنس میں شہزادی ابل رتنا کی نامزدگی کا اعلان کر رہے ہیں۔
تھائی رکسا پارٹی کے رہنما بینکاک میں ایک پریس کانفرنس میں شہزادی ابل رتنا کی نامزدگی کا اعلان کر رہے ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ 67 سالہ شہزادی ابل رتنا کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کو بادشاہ کی منظوری بھی حاصل ہے یا نہیں۔

سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شناوترا کی حامی جماعت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایک شہزادی کو اپنا امیدوار نامزد کرنے کے اعلان سے انتخابات کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔

تجزیہ کار پہلے ہی آئندہ انتخابات کو سابق وزیرِ اعظم کے حامیوں اور ملک کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان دو بدو مقابلہ قرار دے رہے تھے۔

تھائی لینڈ کی سیاست میں گزشتہ 15 برسوں سے تھاکسن شیناوترا کے حامیوں اور ملک میں شہنشاہیت اور فوج کے حامی سیاست دانوں کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔

تھاکسن شیناوترا اور ان کے اتحادی ملک کے دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہیں جب کہ ان کے مخالفین کو شہری علاقوں کے رہائشیوں کی حمایت حاصل ہے۔

خود ساختہ جلا وطنی پر بیرونِ ملک مقیم سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شیناوترا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنی جماعت کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
خود ساختہ جلا وطنی پر بیرونِ ملک مقیم سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شیناوترا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنی جماعت کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

تھاکسن شیناوترا کو خود بھی 2006ء میں ایک فوجی بغاوت کے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد سے وہ ملک میں جاری بدعنوانی کے مقدمات سے بچنے کے لیے خودساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

لیکن ان کی اس جلاوطنی کے باوجود ملک کی مقامی سیاست میں ان کا اثر و رسوخ کم نہیں ہوا ہے اور تھائی لینڈ کی سیاست اب بھی شیناوترا کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تقسیم ہے۔

شہزادی ابل رتنا امریکہ کے معروف تعلیمی ادارے 'میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی' (ایم آئی ٹی) سے تعلیمِ یافتہ ہیں جو 1972ء میں اپنے ایک ساتھی امریکی طالبِ علم سے شادی کرنے کے بعد شہزادی کے لقب سے دستبردار ہوگئی تھیں۔

لیکن، انہیں اب بھی تھائی معاشرے میں ایک شہزادی کا رتبہ اور اہمیت حاصل ہے اور حکام ان کے ساتھ بطور شہزادی ہی برتاؤ کرتے ہیں۔

شہزادی ابل رتنا 1998ء میں اپنی طلاق تک 26 سال امریکہ میں ہی مقیم رہی تھیں جس کے بعد وہ تھائی لینڈ منتقل ہوگئی تھیں۔

XS
SM
MD
LG