رسائی کے لنکس

دلوں کو تقسیم کرنے والی 'دیوارِ برلن' کی یادیں اب بھی باقی ہیں


دیوارِ برلن کا تین کلو میٹر طویل حصہ یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے
دیوارِ برلن کا تین کلو میٹر طویل حصہ یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے

جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی تاریخی 'دیوارِ برلن' کو گرے 30 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن اس کی یادیں آج بھی باقی ہیں۔

دیوار کی موجودگی تک یہ ملک مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کہلاتا تھا۔ یہ دیوار 1961 میں تعمیر کی گئی تھی۔

دیوار برلن جنگ عظیم دوم کے بعد تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا مشرقی حصہ جو مشرقی جرمنی کہلاتا تھا اس وقت قائم سوویت یونین کے قبضے میں آیا جبکہ مغربی حصہ جو مغربی جرمنی کہلاتا تھا، فرانس برطانیہ اور امریکہ کے قبضے میں آیا۔

چونکہ اس دور میں مشرقی جرمنی سے بھاگ کر لوگ مغربی جرمنی میں پناہ لے لیا کرتے تھے۔ لہذا اُنہیں روکنے کے لیے 155 کلو میٹر طویل ایک دیوار بنائی گئی جسے 'دیوارِ برلن' کا نام دیا گیا۔

مشرقی جرمنی کی طرف سے شروع ہی سے اس دیوار کی مخالفت کی جاتی رہی جبکہ اس کے خلاف آئے دن مظاہرے ہوا کرتے تھے۔

مشرقی جرمنی کے ان گنت مظاہرین 'دیوارِ برلن' جا کر اسے ضرب لگاتے اور اس کے خلاف نعرے بلند کرتے۔

آخر کار مظاہروں نے انقلاب کا رُخ اختیار کیا۔ پھر ایک دن اچانک مشرقی جرمنی کے حکام کی جانب سے اس بات کا اعلان ہوا کہ مشرقی جرمنی کے باسیوں کو فوری طور پر مغربی جرمنی جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔

اس اعلان کے فوری بعد یعنی نو نومبر 1989 کو برلن کے باسیوں نے ہتھوڑے لے کر اپنے ہاتھوں سے دیوار کو مسمار کیا اور مغربی جرمنی میں داخل ہوگئے۔

اس دیوار نے 28 برس تک جرمنی کو دو حصوں میں منقسم رکھا لیکن بالاخر یہ منہدم ہو کر رہی۔ اس واقعے کو 30 برس مکمل ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود اسے آج بھی مشرقی یورپ میں کمیونزم کی شکست کی علامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دیوارِ برلن کا تین کلو میٹر طویل حصہ یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے اور ہر سال جب بھی دیوارِ برلن کی سالگرہ آتی ہے یہاں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ لوگ یہاں آکر شمعیں روشن کرتے اور پھول رکھتے ہیں۔

اس بار بھی یہاں رنگا رنگ تقریب منعقد کی گئی جس میں جرمنی کے صدر فرینک والٹر اور چانسلر انگیلا مرکل اور پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ اور جمہوریہ چیک کے سربراہان شریک ہوئے۔

تقریب سے خطاب میں جرمنی کے صدر فرینک والٹر کا کہنا تھا کہ پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ اور جمہوریہ چیک کے بغیر جرمنی کا اتحاد ناممکن تھا۔

جرمن چانسلر نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ لوگوں کو تقسیم کرنے اور ان کی آزادی پر پابندی لگانے والی دیوار کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، وہ ناقابل مسمار نہیں ہو سکتی۔

XS
SM
MD
LG