رسائی کے لنکس

تری پورہ تشدد کی رپورٹنگ کرنے والی دو خاتون صحافی گرفتار


تری پورہ میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے کارکنان کا احتجاجی مظاہرہ (فائل فوٹو)
تری پورہ میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے کارکنان کا احتجاجی مظاہرہ (فائل فوٹو)

بھارت کی شمال مشرقی ریاست تری پورہ کی ایک چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے دہلی سے کام کرنے والی اُن دو کم عمر خاتون صحافیوں کی ضمانت منظور کر لی ہے جن کو تری پورہ کی پولیس نے مبینہ مسلم مخالف تشدد کی رپورٹنگ کرنے پر گرفتار کر لیا تھا۔

مذکورہ خاتون صحافی دہلی کے ایک میڈیا ادارے ’ایچ ڈبلیو نیوز نیٹ ورک‘ کے لیے کام کرتی ہیں۔ ادارے نے پیر کے روز ایک ٹوئٹ میں ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ سمردھی سکونیا اور سورنا جھا کو ٹرانزٹ ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد پیر کی دوپہر بارہ بج کر 55 منٹ پر آسام کے کریم گنج میں واقع ایک شیلٹر ہوم سے گرفتار کیا گیا۔

ایچ ڈبلیو نیوز نے مزید کہا کہ ان کو تری پورہ واپس لے جایا جا رہا ہے جہاں انھیں اُدے پور میں ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ہم دونوں کی فوری رہائی کی کوشش کر رہے ہیں۔

سکونیا اور جھا نے اتوار کے روز الزام لگایا کہ انھیں شمالی تری پورہ ضلع کے دھرما نگر سب ڈویژن کے ایک ہوٹل میں قید رکھا گیا۔ بالآخر وہ دوپہر بعد ریاست چھوڑنے میں کامیاب ہوئیں۔ لیکن آسام کے کریم گنج ضلع میں پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔

وشو ہندو پریشد کارکن کی شکایت پر کارروائی

رپورٹس کے مطابق ان کے خلاف دائیں بازو کی ہندوتو وادی تنظیم وشو ہندو پریشد کے ایک کارکن کنچن داس کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔

کنچن داس کا الزام ہے کہ خاتون صحافیوں نے اوناکوٹی ضلع کے پال بازار علاقے میں مسلمانوں سے ملاقات کے دوران ہندو برادری اور تری پورہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی۔

اس نے اپنی شکایت میں یہ بھی کہا کہ دونوں صحافیوں نے ایک مسجد کو نذر آتش کرنے کا الزام وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل پر عائد کیا۔

رپورٹس کے مطابق اتوار کی صبح کو پولیس نے صحافیوں کو ایف آئی آر کی نقل سونپی اور انھیں اس ہدایت کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی کہ وہ 21 نومبر کو پوچھ پاچھ میں شرکت کے لیے پولیس تھانے میں حاضر ہوں۔

لیکن بعد میں ریاست آسام کی حدود میں پہنچنے کے بعد ریاستی پولیس نے تری پورہ پولیس کی ہدایت پر انھیں حراست میں لے لیا۔ انھیں اتوار کی رات میں تری پورہ لے جایا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔

اگرتلہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں صحافیوں نے اگرتلہ آنے کے بجائے آسام کی جانب فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ رپورٹرس عوام کے درمیان کشیدگی پیدا کر رہی ہیں۔ وہ حقائق کو مسخ اور ریکارڈ کو چھپا رہی ہیں جو کہ مجرمانہ سازش کے زمرے میں آتا ہے۔

سکونیا نے اتوار کی صبح کو ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ تری پورہ میں جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں اس کے باہر پندرہ سے زائد پولیس اہلکار تعینات تھے۔ پولیس نے ان دونوں کے آدھار کارڈ اور سفری کاغذات اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ان کے موبائل فونز بھی پولیس نے ضبط کر لیے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ایف آئی آر کی نقل نہیں دی گئی اور ہمیں بغیر کسی آرڈر کے 100 کلومیٹر تک لے جایا گیا۔ ہم نے نظم و نسق کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ہم خود کو بہت بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ براہ کرم ہماری مدد کریں۔

صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے

ایچ ڈبلیو نیوز کے مطابق آسام پولیس میں ان صحافیوں کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ تاہم، تری پورہ کی پولیس نے انھیں حراست لینے کا کہا۔

اس نے اس کارروائی کو پریس کو نشانہ بنانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مترادف قرار دیا۔

رپورٹس کے مطابق، ان کے خلاف دو فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے اور دیگر دفعات کے تحت دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں ایک میں خطرناک قانون یو اے پی اے کی بات کہی گئی ہے۔ تاہم، ان پر یو اے پی اے لگانے کے الزام کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

صحافی تنظیموں کی مزمت

صحافیوں کی اعلیٰ تنظیم ’ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا‘ کے علاوہ ’ آل انڈیا ویمنز پریس کور‘ اور صحافیوں اور عام لوگوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’ہیومن رائٹس ڈیفنڈر الرٹ‘ اور دیگر میڈیا اداروں نے خاتون صحافیوں کے خلاف اس کارروائی کی مزمت کی اور انھیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایڈیٹرس گلڈ نے اپنے ایک بیان میں صحافیوں کی سفری آزادی کی بحالی کا مطالبہ کیا، جب کہ آل انڈیا ویمنز پریس کور نے اس کارروائی کی مزمت کرتے ہوئے دونوں کو اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کرنے کی آزادی دینے کا مطالبہ کیا۔

’ہیومن رائٹس ڈیفنڈر الرٹ‘ سے وابستہ انسانی حقوق کی کارکن میہا کھنڈوری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پولیس کی یہ کارروائی اظہار خیال کی آزادی پر حملہ ہے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل تری پورہ ہی کے معاملے پر 102 افراد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی ہوئی ہے جن میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق نوجوان خاتون صحافیوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر کسی بھی جمہوریت میں صحافیوں کے خلاف اس طرح کارروائی ہوگی تو پھر کوئی بھی صحافی اپنا کام نہیں کر پائے گا۔

ملکی و بین الاقوامی قوانین کی پامالی

انھوں نے کہا کہ پولیس کی یہ کارروائی بین الاقوامی ضابطوں کے بھی خلاف ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق صحافیوں کو پوری آزادی ہے کہ وہ اظہار خیال کی آزادی کا حق استعمال کرکے رپورٹنگ کریں اور سچائی عوام تک پہنچائیں۔

ان کی تنظیم کی جانب سے قومی انسانی حقوق کمیشن کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں پولیس کارروائی کی شکایت کی گئی ہے اور کمیشن سے مناسب کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی ایسی کارروائیوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ ایسی سچائی سامنے آئے جو اس کے خلاف ہو۔ جمہوریت میں صحافیوں کو اپنا کام کرنے کی آزادی ہے اور حکومت اس آزادی کو چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ قومی انسانی حقوق کمیشن اس معاملے پر کارروائی کرے گا، کیونکہ وہ عوام کا کمیشن ہے اور اسے عوامی حقوق کی بحالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

خیال رہے کہ سمردھی نے سوشل میڈیا پر ایک مسجد کو نذر آتش کیے جانے کی ویڈیو پوسٹ کی تھی اور کہا تھا کہ مسجد کو جلائے جانے کے بعد مقامی مسلمان بہت پریشان ہیں، کیونکہ قریب میں کوئی مسجد نہیں ہے جہاں وہ عبادت کر سکیں۔

حکومت اور پولیس کا موقف

رپورٹس کے مطابق تری پورہ پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکا رنے اتوار کو کہا کہ صحافیوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا کہ گومتی ضلع میں ایک مسجد کو نذر آتش کیا گیا اور قرآن کے ایک نسخے کی بے حرمتی کی گئی۔ اس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

اس سے قبل وزارت داخلہ نے ہفتے کو ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ تری پورہ میں کسی بھی مسجد کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اس نے کسی کے زخمی ہونے، جنسی زیادتی یا موت کی رپورٹس کی بھی تردید کی ہے۔

وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق ایسی رپورٹس جاری کی جا رہی ہیں کہ تری پورہ کے گومتی ضلع میں ایک مسجد کو نقصان پہنچایا گیا اور اس میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ایسی رپورٹس غیر درست ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے والی ہیں۔

ادھر جعلی نیوز کا پتا لگانے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز نے ہفتے کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ تری پورہ پولیس کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پانی ساگر قصبے میں کسی بھی مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ اس کے مطابق مقامی صحافیوں سمیت متعدد افراد نے ویب سائٹ کو بتایا کہ پانی ساگر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک سابق کیمپ میں واقع ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اسے نقصان پہنچایا گیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل تری پورہ کی پولیس نے تشدد کا جائزہ لینے کے لیے آنے والی ایک 'فیکٹ فائنڈنگ' ٹیم کے دو ارکان ایڈووکیٹ انصار اندوری اور ایڈووکیٹ مکیش سمیت 102 افراد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ان میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG