رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کا مواخذہ: مزید گواہان کی طلبی کے لیے آج ووٹنگ ہو گی


ماہرین کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی کی اکثریت رکھنے والے سینیٹ سے مزید گواہان کی طلبی کی منظوری نہ ملنے کا امکان ہے۔ (فائل فوٹو)
ماہرین کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی کی اکثریت رکھنے والے سینیٹ سے مزید گواہان کی طلبی کی منظوری نہ ملنے کا امکان ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے امریکی سینیٹ میں فریقین نے دو روز سے جاری دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ سینیٹرز نے صدر کے وکلا اور ڈیمو کریٹک پراسیکیوٹر سے تندو تیز سوالات کیے۔ اب ڈیمو کریٹس کے مطالبے پر مزید گواہان کی طلبی کے لیے سینیٹ میں ووٹنگ ہو گی۔

البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی کی اکثریت رکھنے والے سینیٹ سے مزید گواہان کی طلبی کی منظوری نہ ملنے کا امکان ہے۔

غالب امکان یہی ہے کہ بہت جلد صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی بھی منطقی انجام تک پہنچ جائے گے اور سینیٹ کثرت رائے سے اُنہیں تمام الزامات سے بری کر دے گی۔

جمعرات کی کارروائی میں کیا ہوا؟

چیف ڈیمو کریٹک پراسیکیوٹر ایڈم شف نے تجویز دی کہ مزید گواہان کی طلبی کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے وکلا نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

ڈیمو کریٹس، ری پبلکن سینیٹرز سے اس ضمن میں ساتھ دینے پر زور دے رہے ہیں۔ ڈیمو کریٹس کا کہنا ہے کہ مزید گواہان سے پوچھ گچھ کے ذریعے ہی شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔ جس کا حلف تمام سینیٹرز نے اُٹھایا ہے۔

البتہ ری پبلکن سینیٹرز کی بڑی تعداد نے بھی اس تجویز کو رد کرتے ہوئے، معاملہ جلدی نمٹانے کا عندیہ دیا ہے۔

ری پبلکن سینیٹر لیمار الیگزینڈر نے کہا کہ "مزید گواہان کو طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں اُن معاملات کو مزید کھنگالنے کی ضرورت نہیں جن کا نتیجہ پہلے ہی عیاں ہو چکا ہے۔"

اُنہوں نے کہا کہ یہ پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ صدر پر لگائے جانے والے الزامات اس قابل نہیں جنہیں امریکی آئین کے تحت قابل مواخذہ ٹھہرایا جا سکے۔

سیاسی ماہرین لیمار الیگزینڈر کے بیان کو ڈیمو کریٹس کے لیے بڑا دھکچہ قرار دے رہے ہیں۔ جنہیں اُس وقت حوصلہ ملا تھا جب بعض ری پبلکن سینیٹرز نے مزید گواہان کی طلبی کی حمایت کی تھی۔

ڈیمو کریٹس کو اس ضمن میں چار ری پبلکنز سینیٹرز کی حمایت درکار تھی۔ جس کے بعد اُنہیں مزید گواہان کی طلبی اور ٹرائل کو طول دینے کے لیے مطلوبہ 51 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہو جاتی۔ لیکن لیمار الیگزینڈر کے بیان کے بعد اب یہ امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں 53 ری پبلکن جب کہ 47 ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز ہیں۔

علاوہ ازیں صدر ٹرمپ کو ٹرائل کے بعد عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی سینیٹرز کی منظوری درکار ہے۔ لیکن سینیٹ میں اکثریتی ری پبلکن اراکین صدر کے خلاف الزامات کو مسترد کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

ڈیمو کریٹس کس کی گواہی چاہتے ہیں؟

ڈیمو کریٹس پراسیکیوٹرز خاص طور پر قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کو بطور گواہ طلب کرنا چاہتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی عنقریب شائع ہونے والی کتاب میں بعض انکشافات کیے تھے۔

جان بولٹن کے بقول، "صدر ٹرمپ نے اُنہیں بتایا تھا کہ وہ یوکرین کی 391 ملین ڈالر کی فوجی امداد اُس وقت تک معطل رکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک یوکرین، سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کے خلاف مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا۔"

خیال رہے کہ جو ہنٹر یوکرین کی ایک انرجی فرم کے لیے کام کرتے تھے۔ جب اُن کے والد امریکہ کے نائب صدر تھے۔

امریکی کانگریس کے ایوانِ بالا، ایوانِ نمائندگان نے گزشہ ماہ صدر ٹرمپ کے خلاف دو الزامات کے تحت مواخذے کی منظوری دی تھی۔

صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سیاسی حریف کے خلاف کارروائی کے لیے دوسرے ملک پر دباؤ ڈالا۔ صدر پر دُوسرا الزام یہ ہے کہ اس ضمن میں کانگریس کی تحقیقات کے دوران بھی اُنہوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔

البتہ صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم کا یہ استدلال رہا ہے کہ صدر کے خلاف سیاسی بنیادوں پر الزامات عائد کیے گئے۔ بطور صدر اُنہیں یہ قانونی حق حاصل ہے کہ اپنے سیاسی مخالف کے خلاف تحقیقات کے لیے زور دے سکیں۔

اب آگے کیا ہو گا؟

امریکی سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوران مزید گواہان کی طلبی کے لیے جمعے کو ووٹنگ ہو گی۔ ڈیمو کریٹس ارکان کو اس ووٹنگ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے چار ری پبلکن اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔

اگر 50، 50 سینیٹرز نے ووٹنگ کے خلاف اور حق میں ووٹ دیے تو پھر ووٹنگ کرانے کا حتمی اختیار ٹرائل کی سربراہی کرنے والے امریکہ کے چیف جسٹس جان رابرٹس کے پاس ہو گا۔

لیکن لیمار الیگزینڈر کے بیان کے بعد ماہرین کے بقول ڈیمو کریٹس کے لیے چار ری پبلکن سینیٹرز کی حمایت کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔

اگر مزید گواہان کی طلبی کی منظوری نہ ہوئی تو پھر سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما مچ میکونل صدر کو مجرم ٹھہرانے یا بری کرنے کے حوالے سے تحریک ووٹنگ کے لیے پیش کریں گے۔

صدر کو عہدے سے ہٹانے اور قصوار وار ٹھہرانے کے لیے 67 سینیٹرز کی حمایت لازمی ہے۔ لہذٰا غالب امکان یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کر دیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ گزشتہ سال سے امریکی ایوانِ نمائندگان میں شروع ہونے والی مواخذے کی کارروائی کو مذاق اور افواہ قرار دیتے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ مختلف تقریبات اور ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور مواخذے کے لیے سرگرم دیگر ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG