رسائی کے لنکس

شام سے امریکی فوج کو اب واپس آجانا چاہیے: صدر ٹرمپ


صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ چوں کہ شام میں داعش کو شکست دی جاچکی ہے لہذا وہاں تعینات امریکی فوجیوں کو اب وطن واپس آجانا چاہیے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ شام میں امریکی فوج کا مشن پورا ہوگیا ہے اور اسے اب وہاں سے واپس بلا لینا چاہیے۔

منگل کو وائٹ ہاؤس میں تین بالٹک ریاستوں کے سربراہان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ شام میں امریکہ کی موجودگی کا بنیادی مقصد داعش کا خاتمہ تھا۔

ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھاکہ چوں کہ یہ مقصد بڑی حد تک حاصل ہوچکا ہے لہذا جلد امریکہ دوسروں کی مشاورت سے یہ فیصلہ کرے گا کہ اب آئندہ کیا کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شام میں موجود امریکی فوجی اب اپنے وطن واپس آجائیں۔

صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ چوں کہ شام میں داعش کو شکست دی جاچکی ہے لہذا وہاں تعینات امریکی فوجیوں کو اب وطن واپس آجانا چاہیے۔

صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے لیے تاحال کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا اور ساتھ ہی وہ یہ عندیہ بھی دیتے رہے ہیں کہ بعض امریکی فوجی دستوں کی شام میں تعیناتی میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود ان کے فوج واپس بلانے کے بیانات پر امریکہ کے اتحادی ممالک اور گروہ خاصی تشویش کا شکار ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں داعش کے خلاف امریکہ کے اہم ترین اتحادیوں - عراقی حکومت اور کرد جنگجوؤں کا اصرار ہے کہ امریکہ فوجی دستے واپس بلانے میں جلدی نہ کرے کیوں کہ اس سے ان علاقوں میں داعش کو دوبارہ مضبوط ہونے کا موقع مل سکتا ہے جہاں سے اسے پسپا کیا گیا ہے۔

عراقی کردستان کی حکومت کے امریکہ میں نمائندے سمیع عبدالرحمن نے خبردار کیا ہے کہ شام سے امریکی فوج کی اچانک واپسی سے خطے میں امریکی اتحادیوں کو غلط پیغام جائے گا۔

منگل کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک سیمینار سے خطاب میں سمیع عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ فوج واپس بلانے کے بیانات کرد اور شامی عوام کے لیے خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرد حکام امریکی فوج کی واپسی پر اپنے تحفظات سے امریکی حکام کو آگاہ کرچکے ہیں۔

سیمینار سے خطاب میں امریکہ میں عراق کے سفیر فرید یاسین نے بھی اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ شام کی صورتِ حال تاحال بہتر نہیں ہوئی ہے اور ایسے میں امریکی فوج کی واپسی سے وہاں شدت پسندوں کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔

گو کہ صدر ٹرمپ بارہا اور واضح الفاظ میں امریکی فوج کی شام سے واپسی سے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں لیکن دیگر اعلیٰ امریکی حکام اس امکان کے بارے میں خاصے محتاط ردِ عمل کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں تعینات امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کی طرف سے بھی ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ شام میں امریکی اور اتحادی فوجی دستے مزید کچھ عرصے تک موجود رہیں گے اور ان کی فوری واپسی زیرِ غور نہیں۔

XS
SM
MD
LG