رسائی کے لنکس

داعش کے کچھ عناصر سے اب بھی عراق کو خطرہ لاحق ہے: ٹلرسن


امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ ’’اب بھی داعش کے کچھ عناصر موجود ہیں، جو عراق کے لیے خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں‘‘۔

اس لیے، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’امریکہ تب تک عراق میں رہے گا، جب تک اِن خطرات سے نمٹ نہیں لیا جاتا، اور ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہوجاتا کہ صورت حال تسلی بخش ہے‘‘۔

ریکس ٹلرسن نے یہ بات کویت میں ’الحرہ ٹیلی ویژن‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔اُن سے پوچھا گیا تھا آیا عراق میں امریکی موجودگی کب تک رہے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر آپ کا مطلب امریکی حکومت یا فوجی موجودگی سے ہے، تو یہ معاملہ حکومت عراق اور وزیر اعظم عبادی سے اٹھایا جانا باقی ہے‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے یاد دلایا کہ عراق میں انتخابات کا مرحلہ نزدیک ہے۔ ’’ہم ابھی عراق میں ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ داعش پھر سے سر نہ اٹھائے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’ایسا ہے کہ ہم نے داعش کو اس طرح شکست دی ہے کہ اُن کے زیر قبضہ تمام علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے۔ لیکن، اب بھی چوکنہ رہنے کی ضرورت ہے‘‘۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ عراق و شام میں دولت اسلامیہ کو شکست دی جا چکی ہے؛ اور اس دہشت گرد گروہ کے زیر قبضہ 100 فی صد علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے۔

ٹلرسن نے کہا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی اتحاد نے داعش کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔

اس ضمن میں، اُنھوں نے بتایا کہ نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے، جس میں راہنما اصول طے کیے گئے ہیں، جس پر سب ارکان کو عمل پیرا ہونا ہوگا؛ اس میں اطلاعات کا تبادلہ، اطلاعات اکٹھے کرنا اور ’انٹرپول‘ ڈیٹابیس استعمال کرنا شامل ہے؛ ’’جس کا مقصد یہ ہے کہ داعش کو دیرپہ شکست دی جاسکے‘‘۔

اسرائیل، ایران اور شام کے درمیان حالیہ جھڑپ سے متعلق ایک سوال پر، امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ اس متعلق اُن کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ بات چیت کا محور لبنان اور لبنانی حزب اللہ کے علاوہ شام کی جانب سے خطرات سے نبردآزما ہونا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم اسرائیل کو لاحق خدشات کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور ہمارا یہ مؤقف ہے کہ اِن خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے اسرائی کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں نہ صرف اس بات پر تشویش ہے کہ شام عدم استحکام کا باعث نہ بنے جس سے اسرائیل کو مزید خطرات درپیش ہوں، بلکہ اس سے اردن، ترکی اور دیگر ہمسایہ ملکوں کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے؛ اور یہی وجہ ہے کہ جب تک داعش کو مکمل طور پر شکست نہیں دی جاتی، ہم شام میں رہیں گے۔ ہم شام کے سیاسی حل کے لیے اپنی کوششیں کرتے رہیں گے، جس سے ہی شام میں طویل مدتی استحکام آسکتا ہے اور شام کا صحیح معنوں میں آزاد تشخص برقرار رہ سکتا ہے‘‘۔

ایران کے اثر و رسوخ کے بارے میں، ٹلرسن نے بتایا کہ سیاسی امن عمل کے ذریعے ہی ایران کے اثر و رسوخ کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ روس اور ایران کو شام میں کوئی کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔

اُن سے سوال کیا گیا کہ اطلاعات کے مطابق، فلسطین اتھارٹی کے صدر، محمود عباس نے روسی صدر کو بتایا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ثالثی کے لیے امریکہ کے کسی طرح کے کردار پر رضامند نہیں ہوں گے ناہی مزید تعاون کریں گے۔ ٹلرسن نے کہا کہ وہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے کچھ اقدامات اور فیصلوں پر عباس کی تشویش کو سمجھتے ہیں۔

بقول اُن کے ’’صدر عباس کو میرا پیغام یہ ہوگا کہ امریکہ اب بھی مشرق وسطیٰ امن عمل کی کامیابی کے عزم پر قائم ہے۔ اور، اس معاملے میں پیش رفت کے حصول کے لیے ہم ہر طرح کی مدد فراہم کرنے پر تیار ہیں۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ صدر عباس مذاکرات کی میز کی جانب آئیں گے۔

XS
SM
MD
LG