رسائی کے لنکس

تیونس: بدعنوان حکمرانوں کے خلاف عوام کے غصے کی ایک جھلک


تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر سے، تیونس کے لوگ نہ صرف یادگار چیزیں تلاش کر رہے ہیں بلکہ انہیں انصاف کی بھی جستجو ہے
تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر سے، تیونس کے لوگ نہ صرف یادگار چیزیں تلاش کر رہے ہیں بلکہ انہیں انصاف کی بھی جستجو ہے

طویل عرصے سے بر سر اقتدار تیونس کے ڈکٹیٹر صدر زین العابدین بن علی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے دو ہفتے بعد، ملک کی عبوری حکومت نے سابق صدر اور ان کے گھرانے کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ ان پر چوری اور دوسرے مالی جرائم کے الزامات عائد کیئے گئے ہیں۔ تیونس کے نواح میں Carthage سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لیزا بریانٹ نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ تیونس کے عام لوگ ایک انتہائی مالدار اور بد عنوان حکمراں گھرانے سے کس طرح حساب چکا رہے ہیں۔ لوگوں نے اس گھرانے کی املاک کو تہ و بالا کر دیا ہے ۔

بلحسن الطرابلسی تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کی بیوی لیلی بن علی کے ارب پتی بھائی ہیں۔ ڈرائیور ان کی رہائش گاہ کے قریب سے گذرتےہوئے ، جو کبھی ایک شاندار محل ہوا کرتا تھا، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ باہر سے اس عمارت میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔ سفید رنگ کی دیوار پر عربی میں ایک عبارت لکھی ہوئ ہے۔

ٹیچر نجی جفالی اس عبارت کا ترجمہ کر رہے ہیں: یہ بلحسن الطرابلسی ۔۔ ڈاکو اور قاتل ۔۔ کا میوزیم ہے۔ جفالی کی طرح تیونس کے سینکڑوں لوگ اس میوزیم کو دیکھنے جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔ یہ در اصل ایک ایسی عمارت ہے جسے لوٹ کر جلایا جا چکا ہے اور جس میں ہر طرف ملبے کا ڈھیر ہے۔ بن علی کے ملک سے فرار ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی ،لوگوں کے ہجوم نے اسے آگ لگا دی تھی۔ اور اب لوگ اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے ہوئے ہیں۔

اڑتیس سالہ قیس باؤزایدی کچھ ٹائل اپنے گھر لے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹائل ڈاکوؤں کے اس گروہ کی علامت ہیں جنھوں نے تیونس کو ہر چیز سے محرو م کر دیا۔

احتجاجی مظاہرین جنھوں نے بن علی کو ملک سے باہر نکالا، انھوں نے ان کے رشتے داروں کو بھی اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے الطرابلسی کے گھرانے کی جائیداد تباہ و برباد کر دی کیوں کہ ان کے خیال میں اس گھرانے کے لوگ اس مبینہ بد عنوان اور بدقماش حکومت کی دیدہ دلیری کی واضح مثال ہیں۔ بن علی کی بیوی، لیلیٰ طرابلسی پیشے کے لحاظ سے ہیئر ڈریسر تھیں۔ ان کا تعلق بہت معمولی گھرانے سے تھا۔

لیکن یہی گھرانہ بنکوں، میڈیا کمپنیوں، سیاحت کے مراکز، اور کاروں کی کمپنیوں کا مالک بن گیا۔

ٹیکسی ڈرائیور عادل کہتے ہیں کہ کسٹمز ڈیوٹی کی وجہ سے انہیں اپنی گاڑی کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کار کو خریدنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ تیونس کی کار کی صنعت پر بن علی کے داماد ساخر متری کی اجارہ داری تھی۔ وہ ایک بہت بڑی ڈیلر شپ کے چیئر مین تھے ۔

تیونس کے لوگ بن علی کے گھرانے اور اس کے رشتے داروں کو جرائم پیشہ افراد کا گروہ یا مافیا کہتے ہیں ۔ بلحسن الطرابلسی کو اس مافیا کو سربراہ سمجھا جاتا تھا۔

مونم کریا ایک بزنس مین ہیں اور وہ بھی Carthage میں بلحسن کے ولا کی سیر کر رہےہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ طرابلسی گھرانہ افریقہ کے ملکوں کے مطلق العنان آمروں کی طرح دولت مند تھا ۔’’ان کی دولت کی کوئی حد نہیں تھی۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کو ان کی امارت پر حیرت ہوتی تھی ۔‘‘

علمہ ماؤنس گھریلو خاتون ہیں۔ انھوں نے ملبے کے ڈھیر سے انسٹنٹ کافی کے ڈبوں کے کچھ ڈھکنے اٹھا لیئے ہیں۔ کافی کے یہ وہ برانڈ ہیں جو تیونس کے عام لوگ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا’’حکمراں خاندان کی بے اندازہ دولت نے تیونس کے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا ۔ اس ولا کی سیر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں رہنے والوں کے پاس دولت تو تھی لیکن وہ بدذوق بھی تھے۔

تیونس کی عبوری حکومت نے بن علی کے گھرانے کے کئی درجن افراد کو گرفتار کر لیا ہے ۔ اس نے سابق صدر اور الطرابلسی سمیت، جو اطلاعات کے مطابق کینیڈا میں ہیں، کئی دوسرے لوگوں کے خلاف بین الاقوامی وارنٹ بھی جاری کیئے ہیں۔

تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر سے، تیونس کے لوگ نہ صرف یادگار چیزیں تلاش کر رہے ہیں بلکہ انہیں انصاف کی بھی جستجو ہے ۔

XS
SM
MD
LG