رسائی کے لنکس

ترکی اور چین کے مشترکہ سمجھوتے


ترکی اور چین کے وزرائے اعظم
ترکی اور چین کے وزرائے اعظم

گذشتہ ہفتے اپنے یورپ کے دورے میں چین کے وزیرِ اعظم وین جیاباؤ ترکی بھی گئے۔ ان دونوں ملکوں کا شمار دنیا کے سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، ٹرانسپورٹ اور بنیادی سہولتوں کی تعمیر کے شعبوں میں تعاون کے کئی سمجھوتے ہوئے۔

ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ یہ دورہ چین اور ترکی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں ایک اہم قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے کہا کہ ہمیں2015 ء تک اپنی تجارت کی مالیت50 ارب ڈالر تک پہنچا دینی چاہیئے۔ اور پھر دوسرے مرحلے میں ہمیں اپنی تجارت کو 2020ء تک 100 ارب ڈالر تک لے جانا چاہیئے۔ اس معاملے میں میرے ہم منصب میرے ساتھ پوری طرح متفق ہیں‘‘۔

چینی وزیرِاعظم وین جیاباؤ نے اس سودے کو ایک نئی اسٹریٹجک پارٹنرشپ قراردیا اورکہا کہ وہ جانتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری میں اوراس علاقے میں ترکی ایک طاقتور اور بااثر ملک ہے۔ دونوں ملکوں نے توانائی، ٹرانسپورٹ اوربنیادی سہولتوں کی تعمیر کے سمجھوتوں کو آخری شکل دی۔ ایک سمجھوتے کے تحت دونوں ملک مشترکہ طورپر ترکی میں 4,500 کلو میٹر طویل ریلوے تعمیر کریں گے۔ چینی کمپنیاں ترکی میں پہلے ہی دو تیز رفتار ٹرین لنکس کی تعمیر میں شریک ہیں۔ترکی اور چین ایران سے تیل کی پائپ لائن کی تعمیر میں بھی شامل ہیں۔

مسٹر اردگان نے کہا کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ تجارت میں اپنی اپنی قومی کرنسیاں استعمال کریں گے۔ ’’ ہم اپنے کاروباری سود ے چینی یوان اور ٹرکش لیرا کی بنیاد پر جاری رکھیں گے ۔ ہم نے روس اور ایران کے ساتھ بھی ایسے ہی اقدامات کیئے ہیں اور ان کے بعد یہ اہم ترین قدم ہو گا‘‘۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چینی وزیراعظم کے دورے کی وجہ صرف تجارت نہیں ہے ۔

بعض اوقات ترکی اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں اوراس کی بڑی وجہ وہ طریقہ ہے جو چین نے سنکیانگ میں بے چینی سے نمٹنے کے لیے اختیار کیا ہے۔

سنکیانگ میں ترک نسل کے مسلمان آباد ہیں جنہیں اوغرز کہا جاتا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترکی اس علاقے میں کشیدگی ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ گذشتہ سال اوغر آبادی میں شدید بے چینی پھیل ہوگئی تھی جسے چینی حکام نے طاقت کے بَل پر دبا دیا تھا۔

اس کے نتیجے میں ترکی اور چین کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ۔ ترک وزیرِاعظم نے چین پر مظالم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا۔ جواب میں بیجنگ نے ترکی سے کہا کہ وہ اس معاملے میں دخل نہ دے۔

سیاسی کالم نگار Murat Yetkin کہتے ہیں کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تجارت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، لیکن ایسا لگتا ہے سفارتی سطح پر بھی تعلقات میں گہرائی آ رہی ہے۔ ’’ اس دورے سے کچھ ہی دن پہلے، ترکی میں دو طرفہ فوجی مشقیں ہوئیں جن میں چینی جیٹ جہازوں نے پاکستان اور ایران کی فضائی حدود میں پرواز کی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ چینی ایئر فورس نے ایسے ملک کے ساتھ جو نیٹو کا رکن ہے فوجی مشق کی۔ ترکی اور چین کے درمیان تعلقات روز بروز زیادہ نمایاں ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔

Omer Bollat ممتاز کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ تعلقات وسیع تر پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد یورپ پر انحصار کم کرنا ہے۔ ’’موجودہ حکومت کے عہد میں ترکی کی معیشت یوریشیا کی منڈیوں میں جیسے روسی قفقاز کے علاقے، بلقان ، اور مشرق وسطیٰ میں خلیج کے ملکوں میں پھیل رہی ہے۔ ترکی کی معیشت اپنی پیداوار، خدمات اور منڈیوں میں تنوع پیدا کر رہی ہے تا کہ یورپی یونین کی منڈیوں پر زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے‘‘۔

ترکی کے خارجہ پالیسی کے مشیر Gokhan Centinsayar کہتے ہیں کہ ماضی میں ترک لیڈروں نے وسط ایشیا اور چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کوششیں کمزور اقتصا دی حالت اور غیر مستحکم حکومت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئیں۔

لیکن ترکی کی بر سرِ اقتدار AK پارٹی سمجھتی ہے کہ ملک کی مضبوط معیشت اور مستحکم حکومت کی وجہ سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

چینی وزیرِ اعظم کے یورپ کے دورے میں، جو 2 اکتوبر کو شروع ہوا، ترکی آخری اسٹاپ تھا ۔ اس دورے میں وہ یونان، بیلجیم ، جرمنی اور اٹلی بھی گئے۔

XS
SM
MD
LG