رسائی کے لنکس

انقرہ میں دھماکے کے بعد ترکیہ کی عراق میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکیہ کی وزارتِ دفاع نےکہا ہے کہ ترک دارالحکومت انقرہ میں سرکاری عمارت پر خودکش حملے کے بعد ترکیہ کے جنگی طیاروں نے اتوار کو عراق کے شمال میں کرد جنگجوؤں کے مشتبہ اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں۔

وزارتِ دفاع کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے لگ بھگ بیس مشتبہ ٹھکانوں کو فضائی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا۔ ان میں غاروں میں قائم پناہ گاہیں اور ڈپو شامل تھے۔

پی کے کے شمالی عراق اور جنوبی ترکیہ میں کردوں کی تنظیم ہے جس کو ترکیہ دہشت گرد قرار دیتا ہے اور اس پر پابندی عائد ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین بھی پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

ترک وزارتِ دفاع نے بیان میں مزید کہا کہ پی کے کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔

قبل ازیں ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں وزارتِ داخلہ کی ایک عمارت کے داخلی دروازے پر اتوار کو خودکش حملہ کیا گیا تھا۔

اس کارروائی میں دو مبینہ دہشت گرد ملوث تھے جن میں سے ایک نے وزارتِ داخلہ کے مرکزی دروازے کے قریب دھماکہ کیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ دوسرا حملہ آور پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔

پی کے کے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جس کی خبر اس کے قریب سمجھے جانے والے ایک خبر رساں ادارے کے ذریعے سامنے آئی تھی۔

ترکیہ کی وزارتِ داخلہ نے بھی حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت کالعدم گروپ کے رکن کے طور پر کی۔

وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوسرے حملہ آور کی شناخت کے لیے کوشش جاری ہے۔

خیال رہے کہ انقرہ میں خودکش حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب ترک پارلیمان تین ماہ کی گرمائی تعطیلات کے بعد دوبارہ اتوار کو اجلاس شروع کرنے جا رہی تھی جس سے صدر رجب طیب ایردوان کو خطاب کرنا تھا۔ بعد ازاں یہ اجلاس شروع بھی ہوا اور اس سے صدر نے خطاب بھی کیا۔

ترک وزارتِ داخلہ کے مطابق دونوں حملہ آور ایک کمرشل گاڑی میں آئے تھے۔ یہ گاڑی جانوروں کے ڈاکٹر سے چھینی گئی تھی۔

حکومت کے حامی اخبار ’روزنامہ صباح‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ حملہ آوروں نے انقرہ سے لگ بھگ 200 کلو میٹر دور اس ڈاکٹر کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش کو سڑک کے کنارے ایک کھائی میں پھینک دیا تھا۔

ترکیہ کے وزیرِ داخلہ علی یرلیکایا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس نے دہشت گردوں کے گاڑی سے نکلتے ہی مزاحمت کی۔

ان کے بقول ان حملہ آوروں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جب کہ دوسرے حملہ آور کو خود کش دھماکے سے قبل ہی پولیس اہلکاروں نےسر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

حکام کے مطابق پولیس کو جائے وقوع سے دھماکہ خیز مواد، دستی بم اور ایک راکٹ لانچر ملے ہیں۔

دھماکے کے بعد پارلیمان کی کارروائی طے شدہ وقت پر شروع کی گئی جس سے صدر رجب طیب اردوان نے خطاب کیا اور اس حملے کو دہشت گردی کا آخری مؤقف قرار دیا۔

رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ شہریوں کے امن و سلامتی کو نشانہ بنانے والے لوگ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے اور نہ کبھی حاصل کر سکیں گے۔

انہوں نے اپنی حکومت کے اس مقصد کا اعادہ کیا کہ شام کے ساتھ ترکی کی سرحد پر 30 کلومیٹر کامحفوظ زون بنایا تاکہ اس کی جنوبی سرحد کو حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ترکیہ نے عراق کے شمالی علاقوں میں پی کے کے کے خلاف متعدد بار سرحد پار حملے کیے ہیں۔

'میرے ابو کے پاس کھانے کے پیسے نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:15 0:00

اس نے 2016 سے شمالی شام میں بھی کارروائیاں کی ہیں تاکہ داعش اور کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کو ترکیہ کے قریب آنے سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ ترکیہ وائی پی جی کو پی کے کے کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے۔

پی کے کے نے 1984 میں ترکیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اس تنازعے میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔

گزشتہ بر س ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں ایک پر ہجوم سڑک پر بم دھماکے میں دو بچوں سمیت چھ افراد ہلاک جب کہ 80 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ترکیہ نے اس حملے کا الزام پی کے کے اور وائی پی جی پر عائد کیا تھا۔

اتوار کے روز سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج میں ایک گاڑی کو وزارتِ داخلہ کے سامنے رکتے دیکھا گیا جس میں سےایک مسلح شخص باہر نکلا جو عمارت کے داخلی دروازے کی طرف تیزی سےبڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔بعد ازاں اس شخس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ اس کے پیچھے ایک دوسرا شخص بھی نظر آتا ہے۔

ترکیہ کی حکومت میں شامل وزرا کا کہنا تھا کہ یہ حملے کسی بھی طرح سے دہشت گردی کے خلاف ترکیہ کی لڑائی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

وزیرِ داخلہ یرلیکایا کا کہنا تھا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے پولیس افسران کا علاج جاری ہے جب کہ ان کی حالت تشویش سے باہر ہے۔

واضح رہے کہ ترک پارلیمان کے اجلاس کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا تھا کیوں کہ اس میں ترکیہ کی جانب سے سوئیڈن کو عسکری اتحاد نیٹو میں شامل کرنے کی توثیق کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔

صدر رجب طیب ایردوان نے پارلیمنٹ سے خطابمیں اس بات کا عندیہ نہیں دیا کہ ترکیہ کی پارلیمنٹ نیٹو میں سوئیڈن کی رکنیت کی توثیق کب کر سکتی ہے۔

سوئیڈن نے گزشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے بعد فن لینڈ کے ساتھ نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔

ترکیہ نے فن لینڈ کی شمولیت کی تو منظوری دے دی تھی البتہ سوئیڈن کی رکنیت کو بلاک کر دیاتھا۔

ترکیہ نے سوئیڈن پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی سرزمین پر پی کے کے جیسے گروہوں سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا۔

واضح رہے کہ عسکری اتحاد نیٹو میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، ترکیہ اور یورپی ممالک کے 31 ممالک شامل ہیں۔ اس میں کسی بھی نئے رکن کی شمولیت کے لیے تمام ممالک کی رضا مندی اور منظوری ضروری ہے۔

انقرہ میں دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سوئیڈن کے وزیرِ اعظم الف کرسٹرسن کا کہنا تھا کہ سوئیڈن انقرہ میں دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔

سوئیڈش وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکیہ کے ساتھ طویل المدتی تعاون کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG