رسائی کے لنکس

میانمار: روہنگیا مظالم کی رپورٹنگ کرنے والے دو صحافی رہا


دونوں صحافیوں کا جیل سے رہائی کے بعد استقبال کیا جا رہا ہے۔
دونوں صحافیوں کا جیل سے رہائی کے بعد استقبال کیا جا رہا ہے۔

میانمار کی حکومت نے 2017ء میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی تحقیقات کرنے والے دو صحافیوں کو 500 دن سے زائد قید رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے۔

دونوں صحافیوں – 33 سالہ وا لون اور 29 سالہ کیو سوئی او – کو میانمار کی ایک عدالت نے نو آبادیاتی دور کے ایک قانون 'آفیشل سیکریٹس ایکٹ' کے تحت گزشتہ سال ستمبر میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سزا کے خلاف ان کی اپیلیں گزشتہ ماہ ہی میانمار کی سپریم کورٹ نے مسترد کردی تھیں۔

لیکن منگل کو دونوں صحافیوں کو ینگون کے نواح میں واقع جیل سے رہا کردیا گیا۔ 'رائٹرز' کے مطابق دونوں صحافیوں کی رہائی ایک صدارتی حکم نامے کے تحت عمل میں آئی ہے جس کے تحت منگل کو میانمار کی حکومت نےساڑھے چھ ہزار سے زائدقیدیوں کی سزائیں معاف کی ہیں۔

میانمار کے صدر ون منٹ گزشتہ ماہ سے اب تک قید کی سزا کاٹنے والے ہزاروں قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرچکے ہیں جن میں سیکڑوں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو عام معافی مقامی سالِ نو کے جشن کے سلسلے میں دی جا رہی ہے جس کا آغاز 17 اپریل کو ہوا تھا۔

دونوں صحافیوں کو پولیس نے دسمبر 2017ء میں حراست میں لیا تھا اور ان کی سزا کی مدت ان کی گرفتاری کے دن سے شروع ہوئی تھی۔ دونوں صحافیوں پر خفیہ سرکاری دستاویزات حاصل کرنے اور انہیں اپنے پاس رکھنے کا الزام تھا۔

لیکن صحافیوں کا مؤقف تھا کہ پولیس نے راکھین میں جاری مظالم سے متعلق ان کی تحقیقات روکنے کے لیے انہیں خفیہ سرکاری دستاویزات کے مقدمے میں پھنسایا۔

دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں، ذرائع ابلاغ کے اداروں ، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ملک میانمار کی حکومت سے ان صحافیوں کی رہائی اور ان کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جسے میانمار کی حکومت ماننے سے انکاری تھی۔

سزا پانے والے دونوں صحافیوں کا تعلق برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے ہے اور وہ اپنی گرفتاری سے قبل ریاست راکھین کےا یک گاؤں اِن ڈن میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں 10 روہنگیا نوجوانوں اور مردوں کے مبینہ قتل اور دیگر مظالم کی تحقیقات کر رہے تھے۔

دونوں صحافیوں کی مرتب کردہ رپورٹ کو بعد ازاں صحافتی دنیا کے اعلیٰ ترین اعزاز 'پلٹزر پرائز' کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔

میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز اور بودھ انتہا پسندوں کے حملوں کا سلسلہ اگست 2017ء میں شروع ہوا تھا جو کئی ماہ تک جاری رہا تھا۔ اقوامِ متحدہ اور کئی ممالک ان حملوں اور کارروائیوں کو روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔

فسادات اور حملوں سے بچنے کے لیے راکھین سے سات لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سر وسامانی کے عالم میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جو دو سال گزرنے کے باوجود تاحال وہیں مقیم ہیں۔

XS
SM
MD
LG