رسائی کے لنکس

برطانیہ : کشتیوں پرآنے والے تارکین وطن کا داخلہ روکنے کے لیے نئی قانون سازی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

برطانیہ کی حکومت چھوٹی کشتیوں میں پناہ کے متلاشیوں کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی کے نئے قانون کے لیے تفصیلات مرتب کرے گی۔ کچھ پناہ گزینوں کے فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ تجویز ناقابل عمل ہے جو ہزاروں حقیقی تارکین وطن کی کوششوں کو جرم قرار دے سکتی ہے۔

گزشتہ سال برطانیہ کے جنوبی ساحل پر آنے والے تارکین وطن کی تعداد 45,000 سے تجاوز کر جانے کے بعد وزیر اعظم رشی سونک نے کشتیوں کی آمد کو روکنا اپنی پانچ اہم ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ ان چھوٹی کشتیوں میں آنے والے تقریباً 90 فیصد نے پناہ کے لیے درخواستیں دی تھیں۔

سونک نے منگل کے روز دی سن ٹیبلوئڈ اخبار میں ایک مضمون میں لکھا کہ نئی قانون سازی کا مطلب یہ ہوگا کہ چھوٹی کشتیوں پرآنے والے کسی بھی شخص کو سیاسی پناہ کا درجہ حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا اور کسی محفوظ تیسرے ملک میں بھیج دیا جائے ۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک

پناہ گزینوں کی کونسل کی چیریٹی نے کہا کہ ان منصوبوں کے تحت لاکھوں حقیقی پناہ گزینوں کے ساتھ ، جن کو پہلے پناہ دی گئی تھی، ’’مجرموں کی طرح سلوک‘‘ کیا جائے گا، جو اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کے تحت برطانیہ کے وعدوں کے منافی ہو گا۔

اقوام متحدہ کا کنونشن سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے منصفانہ سماعت کا ایک موقع فراہم کرتا ہے، چاہے وہ کسی ملک میں کیسے ہی پہنچے ہوں۔

کچھ علاقوں میں امیگریشن کے مسئلے نےپچھلی دہائی کےدوران برطانوی سیاست میں ایک واضح اہمیت اختیار کر لی تھی اورمہم چلانے والوں نے 2016 کے ریفرنڈم سے قبل بریگزٹ کے لیے حمایت کو ہوا دینے کے لیے اسے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا تھا۔

سونک نے مضمون میں کہا، "چھوٹی کشتیوں پر آنے والے جنگ زدہ ملک سے براہ راست فرار نہیں ہو رہے ہیں اورنہ ہی ان کی زندگی کو کسی خطرے کا سامنا ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے چینل کو عبور کرنے سے پہلے محفوظ، یورپی ممالک کا سفر کیا ہے۔

وزارت داخلہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چھوٹی کشتیوں پرآنے والوں میں سے صرف دو تہائی کو پناہ دی جاتی ہے یا انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ فراہم کیا گیا۔

برطانیہ میں پناہ کی درخواستوں کی تعداد 2022 میں تقریباً 75,000 تھی جو اس حوالے سے 20 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ یہ اب بھی یورپی یونین کی اوسط سے کم ہے۔ جرمنی کو گزشتہ سال پناہ کی 240,000 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں۔

حزب اختلاف کی جماعتوں اور رفاحی اداروں نے سوال کیا ہے کہ کیا تازہ ترین منصوبے لوگوں کو چینل کراسنگ بنانے سے روکنے کی پچھلی کوششوں سے زیادہ موثر ثابت ہوں گے، جو انسانی سمگلروں کے لیے منافع بخش اور تارکین وطن کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

بہت سےعملی اورقانونی مسائل بھی حکومت کی تجاویزکے آڑے آئیں گے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر تارکین وطن پناہ کا دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیےنئی قانون سازی کو ممکنہ طور پر کئی قسم کے قانونی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امیگریشن کو کنٹرول کرنا ووٹروں کے لیے معیشت اور صحت کی خدمات کو چلانے کے بعد تیسرا سب سے اہم مسئلہ تھا۔ نومبر میں رائے عامّہ کے ایک جائزے میں 87 فیصد عوام نے کہا کہ حکومت اس معاملے سے موثر طور پر نہیں نمٹ رہی ہے۔

(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG