رسائی کے لنکس

دو عشروں میں تارکین وطن میں 10 کروڑ کا اضافہ، اکثریت کی منزل امریکہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ سال کرونا وائرس کے باعث سفری پابندیوں کے باوجود اس صدی کے پہلے دو عشروں میں دنیا بھر میں تارکین وطن کی تعداد میں بڑا اضافہ دیکھا گیا اور 10 کروڑ کے لگ بھگ لوگ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔

ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق امریکہ تارکین وطن کی سب سے بڑی منزل رہا۔ امریکہ میں اس وقت پانچ کروڑ 10 لاکھ تارکین وطن بستے ہیں۔ جب کہ جرمنی ایک کروڑ 60 لاکھ نئے تارکین وطن کے ساتھ دوسرے اور سعودی عرب ایک کروڑ 30 لاکھ تارکین وطن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کی "انٹرنیشنل مائیگریشن" رپورٹ میں شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روس میں اس وقت ایک کروڑ 20 لاکھ تارکین وطن ہیں جب کہ برطانیہ میں ہجرت کر کے جانے والے لوگوں کی تعداد 90 لاکھ ہے۔

لیکن 2020 میں کرونا وائرس کے بحران کے سبب 20 لاکھ افراد ہجرت نہ کر پائے اور یوں تارکین وطن کی تعداد کے بڑھتے رجحان میں 27 فی صد کمی رہئ۔

لوگوں کی ایک سے دوسرے ملک میں منتقلی کو آج کی عالمگیر زندگی کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دو دہائیاں قبل سن 2000 میں 17 کروڑ 30 لاکھ لوگ اپنے آبائی ممالک سے باہر مقیم تھے جب کہ 20 برس بعد 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 28 کروڑ 10 لاکھ ہو گئی۔

عالمگیریت کے اس دور میں ہجرت کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ترقی پذیر ممالک نے اقتصادی طور پر فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ تارکین وطن کی طرف سے بھیجے جانے والی رقوم نے لوگوں کے مالی حالات کو بہتر کرنے میں مدد کی ہے۔

لیکن گزشتہ سال عالمی وبا کی وجہ سے تارکین وطن کی جانب سے اپنے آبائی ملکوں میں بھیجی جانے والی رقوم میں کمی آئی۔

میکسیکو کے بارڈر کراسنگ پر امریکہ جانے کے خواہش مند احتجاج کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
میکسیکو کے بارڈر کراسنگ پر امریکہ جانے کے خواہش مند احتجاج کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق تارکین وطن کی درمیانے درجے کی آمدنی والے ممالک کو بھیجی گئی رقوم میں 78 بلین ڈالر یعنی 14 فی صد کمی رہی۔

نتیجتاً اس سے کئی لاکھ لوگوں کے مالی وسائل میں کمی آئی۔ مثال کے طور پر دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن کا تعلق بھارت سے ہے، جہاں سے ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ ہجرت کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ اسی طرح روس کے ایک کروڑ دس لاکھ نفوس جب کہ چین کے ایک کروڑ افراد دوسرے ملکوں میں بستے ہیں۔

مشرق وسطی کے ملک شام سے، جہاں ایک عشرے سے زیادہ طویل عرصے سے جنگ جاری ہے، 80 لاکھ لوگ مہاجر بن دوسرے ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے تارکین وطن اپنے آبائی ملکوں سے زیادہ دور جا کر نہیں بستے اور دنیا بھر میں ہجرت کرنے والے لوگوں کی تقریباً نصف تعداد اپنے خطے میں ہی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر یورپ کے 70 فی صد پاشندے اسی براعظم کے ملکوں میں ہی نقل مکانی کرتے ہیں۔ اسی طرح سب صحارا افریقہ کے 63 فی صد لوگ اسی خطے میں ایک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے ہیں۔

عام تاثر کے برعکس پناہ گزینوں میں سے 80 فی صد کم اور درمیانے درجے کی آمدنی والے ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں آباد تارکین وطن کی کل تعداد کا 12 فی صد ہے۔

XS
SM
MD
LG