برطانیہ میں ٹرک ڈرائیورز کی کمی کے باعث پیٹرول کی قلت پر قابو پانے کے لیے فوج کے اہلکاروں کو متحرک کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق منگل کو جنوبی انگلینڈ کے فیول ڈپو سے نکلنے والے ٹرک چلانے والوں میں بیشتر برطانیہ کی فوج کے اہلکار تھے۔
برطانیہ میں گزشتہ کئی روز سے ٹرک ڈرائیورز کی قلت کے باعث پیٹرول کے بحران نے جنم لے لیا تھا۔
حکومت نے بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی طور پر آئل ڈپوز سے پمپس تک پیٹرول کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق پیر کو لگ بھگ 200 فوجی اہل کاروں کو اس مقصد کے لیے تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ بطور ٹرک ڈرائیور پیٹرول پمپس تک پیٹرول کی فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔
محکمۂ خزانہ کے سربراہ رشی شناک نے مقامی ریڈیو 'ایل بی سی' کو بتایا کہ فوج کے ڈرائیورز کو تعینات کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب صورتِ حال میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اب طلب کے مطابق سپلائی پہنچائی جا رہی ہے۔ لہٰذا لوگوں کو یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
حکومتی دعوؤں کے باوجود پیٹرول ری ٹیلیر ایسوسی ایشن کی جانب سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ جنوب مشرقی انگلینڈ اور لندن سمیت ایسوسی ایشن کے 22 فی صد ارکان کو تاحال سپلائی نہیں ملی۔
خیال رہے کہ ایسوسی ایشن کے تحت ملک بھر میں 5500 فیول ریٹیلرز ہیں۔
ڈرائیوروں کی قلت کیوں ہے؟
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق برطانیہ میں لاری یا ٹرک ڈرائیوروں کی قلت عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اس بارے میں برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ کرونا وائرس ہے۔
ٹرانسپورٹ سیکریٹری گرانٹ شاپس نے چند روز قبل ’اسکائی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا کے باعث سماجی فاصلے پر عمل درآمد کی وجہ سے لاری ڈرائیوروں کی تربیت میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں اس بحران کی ’اصل وجہ‘ ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزیٹ میں عجلت بھی ٹرک ڈرائیوروں کی کمی کے اس حالیہ بحران کا باعث ہے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانیہ نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ اسے حالیہ بحران کے علاوہ معیشت کی تشکیلِ نو میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں اداروں 'رائٹرز'، 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔