رسائی کے لنکس

یوکرین جنگ نے پناہ گزینوں کےعالمی بحران کو شدید تر بنا دیا ہے، عالمی ادارہ


یوکرین سے بے گھر ہو کر پولینڈ کا رخ کرنے والے مہاجرین کا ایک قافلہ۔ 9 مارچ، 2022ء
یوکرین سے بے گھر ہو کر پولینڈ کا رخ کرنے والے مہاجرین کا ایک قافلہ۔ 9 مارچ، 2022ء

یوکرین پر روسی حملے اور وہاں جاری جنگ نے پناہ گزینوں کے اس بحران کو شدید تر کر دیا ہے جو پہلے ہی دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ شام، افغانستان، یمن، قرن افریقہ، میانمار اور دنیا کے دوسرے کئی ملکوں سے جنگوں، تشدد، دہشت گردی اور بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے لوگ پناہ کی تلاش میں دوسرے مقامات پر پہنچنے کی کوشش میں یا تو اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، یا اگر وہ کسی منزل پر پہنچ بھی جائیں تو بیشتر صورتوں میں کسی اچھے سلوک کے مستحق قرار نہیں پاتے اور ان کی زندگیاں بے سروسامانی کے عالم میں کیمپوں میں ہی گزرتی ہیں۔

اکچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو خود اپنے ہی وطن کے اندر بے گھر ہوکر بے وطنوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ابھی دنیا کرونا وبا کے معشیتوں پر منفی اثرات اور دباؤ سے نکلنے کی جدو جہد کر ہی رہی تھی اور عالمی ادارے، عطیہ دینے والے ملک اور مخیر افراد پہلے سے موجود لاکھوں پناہ گزینوں کی پوری طرح مدد کرنے کے قابل بھی نہیں ہوئے تھے کہ یوکرین کی جنگ نے پناہ گزینوں کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ اور اب یوکرین سے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزیں فرار ہو کر یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔

بابر بلوچ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آرکے ترجمان ہیں۔ سوئٹزرلینڈ سے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ چودہ پندرہ روز کے دوران ا ب تک کوئی25 لاکھ افراد یوکرین سے ترک مکانی کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کا یورپ میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران ہے۔

بابر بلوچ نے کہا کہ روزنہ کوئی ایک لاکھ لوگ پناہ گزیں بن کر یوکرین سے نکل رہے ہیں اور بعض اوقات یہ تعداد دو لاکھ روز انہ تک بھی پہنچ جاتی ہے جیسا کہ ہم نے چھ اور سات مارچ کو دیکھا کہ یوکرین چھوڑنے والوں کی تعداد کوئی دو لاکھ روزانہ رہی۔

اس کے علاوہ اندرون ملک بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ اس کے علاوہ ہیں۔ بابر بلوچ نے کہا کہ ان کی صحیح تعداد کتنی ہے اور وہ کس حال میں ہیں، وہاں کے حالات کے پیش نظر اس وقت یہ بتانا بہت مشکل ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان نے بتایا کہ یوکرین سے نکلنے والے پناہ گزینوں میں سے 15 لاکھ پولینڈ پہنچے ہیں۔ کوئی سوا دو لاکھ ہنگری میں ہیں۔ سلواکیہ میں دو لاکھ کے قریب ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ پنا گزیں روس کی طرف بھی گئے ہیں۔ جب کہ مالدووہ جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی ایک لاکھ کے قریب پناہ گزیں پہنچ چکے ہیں۔ ان پڑوسی ملکوں کے علاوہ اب تک کے اندازوں کے مطابق یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی کوئی تین لاکھ پناہ گزیں آئے ہیں

شروع میں ماہرین کا اندازہ تھا کہ چھ ماہ کی مدت میں یوکرین سے نکلنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کوئی چایس لاکھ تک ہو جائے گی۔ لیکن وہ اندازے غلط ثابت ہوئے اور ابتدائی دو ہفتوں ہی میں یہ تعداد25 لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے اور کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ مزید کتنے پناہ گزیں آئیں گے۔

بابر بلوچ نے کہا کہ کہ اگر جنگ ختم نہ ہوئی یا فوری جنگ بندی نہ ہوسکی تو کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ حالات کہاں جاکرٹھہریں گے۔

پناہ گزینوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے جن کی زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ بابر بلوچ نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ممالک، خاص طور پر دولت مند مغربی ممالک اور عالمی ادارے مل کر کام کریں، ورنہ اتنے بڑے بحران پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ ان کے مطابق یہ بات باعث اطمنان ہے کہ اس وقت بحران سے نمٹنے کے لی ے ملکوں اور عالمی اداروں میں بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے ابتدا میں چھ سو ملین امریکی ڈالر کی اپیل جاری کی تھی۔ بابر بلوچ نے بتایا کہ ان کے ادارے کو اب تک اس میں سے دو سو سے ڈھائی سو ملین کے قریب مل چکے ہیں۔ لیکن جس طرح سے بحران بڑھ رہا ہے، اس کے پیش نظر مزید وسائل کی ضرورت یقیناً پڑے گی۔

یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ یوکرین سے نکلنے والوں اور پڑوسی ملکوں میں پہنچنے والوں میں سے بعض لوگوں کو نسلی بنیاد پر امتیاز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں بابر بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کو بھی اس کی اطلاعات ملی ہیں اور ہم نے کئی ممالک کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا بھی ہے۔ لیکن ان ملکوں کی جانب سے یہ تسلی کرائی گئی ہے کہ یہ سرکاری پالیسی نہیں ہے۔ یہ انفرادی نوعیت کے واقعات ہوسکتے ہیں۔ ان کے ادارے نے ایسے واقعات کی مذمت کی ہے۔ اور کہا ہے جو بھی وہاں سے جان بچاکر نکل رہا ہے۔ اسے ایک نظر سے دیکھا جائے اور سب کےساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔

پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے اور جنگ بھی جاری ہے۔ اور وثوق سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتاہے۔ کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کہاں پہنچے گی۔

XS
SM
MD
LG