رسائی کے لنکس

روس یوکرین پر حملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے: بلنکن


روس اور بیلاروس کی اتحادی افواج کا نصب کردہ راکیٹ لائنچر نظام۔ 17 فروری، 2022ء
روس اور بیلاروس کی اتحادی افواج کا نصب کردہ راکیٹ لائنچر نظام۔ 17 فروری، 2022ء

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ امریکہ کے خیال میں روس یوکرین پر جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے، اور خبردار کیا کہ ماسکو آئندہ کچھ ہی دنوں کے اندر فوجی کارروائی کرنے کی تیاری کرچکا ہے۔اور وہ روس پر ، ان کے الفاظ میں اصلی یا نقلی حملے میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ روس آئندہ کچھ دنوں میں یوکرین پر حملہ کر دے گا۔

سلامتی کونسل کا اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے امریکہ الزام عائد کر رہا ہے کہ روس اپنی ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوج یوکرین کی سرحد کے قریب لے آیا ہے۔ روس کا موقف ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ ماسکو کے بقول مغرب خوف کا ماحول پیدا کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا کہ جو معلومات مل رہی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ روس آئندہ دنوں میں یوکرین پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے آئندہ ہفتے یورپ میں ملاقات کرنے کے لیے کہا ہے۔

پندرہ ارکان پر مشتمل سلامتی کونسل میں بلنکن نے' منسک سمجھوتوں 'کا حوالہ دیا جن کا مقصد یوکرین کی فوج اور یوکرین کے مشرق میں واقع روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان آٹھ سالہ تنازع ختم کرانا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ سفارت کاری کی راہ اپنا کر اب بھی لڑائی سے بچا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل، روسی معاون وزیر خارجہ سرگئی ورشنین نے کہا کہ بے بنیاد الزامات عائد کرکے کونسل کے اجلاس کو، بقول ان کے، سرکس نہ بنایا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ روس اب بھی یوکرین کی سرحدوں کے ساتھ فوج تعینات کر رہا ہے اور یہ کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ روس فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے، جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

پینٹاگان کے سربراہ نے برسلز میں نیٹو کے وزرائے خارجہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا''۔

بلکہ انھوں نے کہا کہ '' اس کے برعکس، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ڈیڑہ لاکھ فوج میں مزید اضافہ کرتے جارہے ہیں، جو کہ سرحد کے ساتھ موجود ہے۔ ہم نے یہ تک بھی دیکھا کہ وہ خون کی رسد جمع کر رہا ہے''۔

آسٹن نے کہا کہ'' مجھے پتا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ بلا وجہ نہیں کرتے، اور یقینی طور پر آپ ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے اگر آپ کی نیت گھر واپس جانے کی ہے''۔ امریکی اہلکاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں کے دوران، روس نے یوکرین کی سرحد پر مزید 7000فوجی روانہ کیے ہیں۔

آسٹن نے مزید کہا ہے کہ سال 2014ء میں یوکرین کے جزیرہ نما کرائیمیا کو ضم کرنے کے بعد روس کے پاس اب کوئی جواز نہیں کہ وہ پھر یوکرین پر حملہ کرے۔

واشنگٹن میں صدر جوبائیڈن نے روسی حملے کے خدشات کو ''بہت زیادہ'' قرار دیا۔ بائیڈن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس جارحیت کرے گا۔

بقول صدر، ''ہاں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں آئندہ چند روز کے اندر اندر یہی کچھ ہوگا''۔لیکن بائیڈن نے کہا کہ وہ اب بھی اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ سفارتی حل ممکن ہے۔

آسٹن نے کہا کہ اگر روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین کے بحران کے حل کے لیے سفارت کاری کی جگہ لڑائی کو ترجیح دیتے ہیں، تو ہونے والےبے تحاشہ جانی نقصان کی تمام تر ذمہ داری مسٹر پوٹن کے سرہوگی۔

اس سے قبل، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو بتایا ہے کہ روس نے امریکہ کے ڈپٹی چیف آف مشن (ڈی سی ایم) بارٹ گورمن کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے، جس پر امریکہ نے جوابی اقدام کا انتباہ جاری کیا ہے، یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔

ترجمان نےبتایا کہ ''معاون چیف آف مشن کے خلاف اس اقدام کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا اور ہم اسے کشیدگی بڑھانے کا ایک قدم خیال کرتے ہوئے جوابی کارروائی پر غور کررہے ہیں''۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ روس کے پاس ایک اعلیٰ اہل کار کو بےدخل کرنے کا کیا جواز تھا،؟ یہ اقدام یوکرین کی سرحد کے قریب ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوج تعینات کیے جانے کے معاملے پر کئی ماہ سے جاری تعطل کے بعدسامنے آیا ہے۔

امریکی اہل کاروں نے خبردار کیا ہے کہ روسی حملے کا امکان شدت اختیار کر گیا ہے اور عین ممکن ہے کہ روس تنازع کا کوئی بہانہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اگرچہ روس یہ کہہ چکا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد سےاپنے کچھ فوجی ہٹا رہا ہے۔

سرحد پر جاری تناؤ کے علاوہ امریکہ اور روس ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارتی تعیناتی کے معاملے پر اختلاف کرتے رہے ہیں۔ دسمبر میں روس نے کہا تھا کہ امریکی سفارت خانے کا عملہ جسے تین سال سے زیادہ مدت ہو چکی ہے، انھیں اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔

ترجمان نے کہا کہ گورمن ماسکو کے امریکی سفارت خانے میں دوسرے اعلیٰ ترین امریکی اہل کار ہیں۔ ان کے پاس ضابطہ کار کے مطابق درست ویزا ہے اور انہیں ماسکو میں تعینات ہوئے تین سال سے کم عرصہ ہوا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ''ہم روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی سفارت کاروں اور عملے کی بلاجواز بے دخلی سے باز رہے اور ہمارے مشنز کو مضبوط بنانے کے کام میں معاونت کرے''۔

ترجمان نے کہا کہ ''اب اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہمارے ملکوں کے پاس ضروری سفارتی اہل کار موجود ہو ں تاکہ دونوں ملکوں کے مابین رابطے کی سہولت برقرار رہے''۔

(اس خبر کا مواد رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG