رسائی کے لنکس

معاشی عدم استحکام کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں، ماہرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایسے میں جب کہ دنیا ابھی تک کووڈ کی وبا کے اثرات سے پوری طرح نکلنے بھی نہیں پائی تھی کہ یوکرین پر روسی حملے اور توانائی کے بحران اورمستقبل قریب میں غذائی اجناس کی امکانی قلت کے بحران نے عالمی معیشت کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح انتہائی مضبوط معیشتوں تک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے اور عالمی بینک نے عالمی معیشت کے مستقبل کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ کوئی روشن تصویر پیش نہیں کرتا۔

عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی پیش گوئی میں کہا ہے کہ اس سال عالمی معیشت صرف دو اعشاریہ نو فیصد بڑھے گی۔ جو 2021 کی پانچ اعشاریہ سات فیصد عالمی پیداوار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

اس پورے پس منظر میں اگر امریکی معیشت اور اس ملک میں بڑھتے ہوئے افراط زر کی شرح پر نظر ڈالی جائے تو ایک ایسے سال کے دوران، جس میں وسط مدتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں، یہ صورت حال خاص طور پر حکمراں جماعت کےلیے پریشان کن ہے اور ماہرین کے بقول امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ ہے کہ وہ غذائی اجناس، یپٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مکانوں کےکرایوں کی آسمان کو چھونے والی سطح میں کمی لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔

اے بی سی نیوز-آئی پی ایس او ایس کے تازہ جائزے کے مطابق صرف 28 فیصد ووٹروں نے افراط زر کی بلند شرح سے نمٹنے اور معیشت کو درست راہ پر لانے کے لیے صدر بائیڈن کی کوششوں اور طریقہ کار کار کو درست قرار دیا ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ فیڈرل ریزرو کو جس نے حالیہ مہینوں میں اپنی مالیاتی پالیسیوں کو سخت کیا ہے، اپنا کام کرنے دیں گے اور وہ قیمتوں میں کمی لانےکے لیے نئے اقدامات پر عمل کریں گے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت کی عالمی صورت حال میں زیادہ اقدامات کی زیادہ گنجائش بھی نہیں ہے۔ٍ

عزیر یونس کا تعلق امریکہ کی اٹلانٹک کونسل سے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یقیناً ملک میں مہنگائی ہے، جس کی بڑی وجہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ کیونکہ جب تیل کے نرخ بڑھتے ہیں تو اس کا اثر دنیا کی تقریبا ً ہر چیز کی قیمت پر پڑتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت کم ہے۔ فروخت کے اعداد و شمار بھی بہت بہتر ہیں اور ہاؤسنگ مارکیٹ بھی بہت مضبوط جا رہی ہے۔ لیکن لیکن پھر بھی اکثر امریکی صارف خوش نظر نہیں آتے اور یہ معیشت کی حقیقی صورت حال اور لوگوں کے جذبات اور احساسات میں ایک طرح کا تضاد ہےجس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عام صارف کو پٹرول پمپ پر جو مہنگائی نظر آتی ہے وہ اسے پریشان کر رہی ہے اور وہ صرف پٹرول کی بڑھی ہوئ قیمت کو دیکھتا ہے۔ اور بقیہ چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے

پٹرول کی قیمتوں کےمتعلق اس وقت تک کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا جب تک یوکرین میں جنگ جاری رہے گی۔

تاہم صدر بائیڈن صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور اسی حوالے سے وہائٹ ہاؤس کے مطابق وہ جلد ہی سعودی عرب کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔ پھر اوپیک پلس نے اپنی پیداوار بڑھانے کا اعلان کیا ہے علاوہ ازیں انہوں نے وینیزویلا کے ساتھ سفارتی ذرائع سےمعاملات بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں تا کہ اس کے تیل سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔

پھر یہ بھی مطالبہ ہے کہ وفاقی حکوت کی ان علاقوں سے تیل نکالے جہاں اس کے قدرتی ذخائر موجود ہیں لیکن اس میں ایک جانب تو ماحولیات کے سرگرم کارکن مزاحمت کر رہے ہیں تو دوسری جانب یہ مسئلے کا فوری حل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کافی وقت درکار ہوگا۔

عام آدمی سیاست اور معیشت کی وجہ سے پس رہا ہے، سحر خان
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:16 0:00

امریکہ کو دوسری مشکل یہ درپیش ہے کہ اس سال کے آخر میں کانگریس کے مڈٹرم انتخابات ہو نے والے ہیں جن میں ہر دو سال بعد ایک تہائی سنیٹرز اور ایوان نمائندگان کے تمام ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تناظر میں انتخابی نتائج کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ حالات حکمراں جماعت کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔

اس وقت جو مسئلہ صرف امریکہ کو ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو متاثر کر رہا ہے، وہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ہے جس کے فوری طور ہر ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ ماہرین کے بقول اگر یہ جنگ آج ہی ختم ہو جائے تب بھی آنے والے کئی برسوں تک اس کے اثرات دنیا کے لیے مشکلات کا سبب بنے رہیں گے۔

ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور معاشیات اور مارکیٹنگ پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں افراط زر گزشتہ 40 برس کی بلند ترین سطح پر ہے، یعنی آٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ جب کہ حکومت کے پاس اسے کم کرنے یا معیشت کا رخ تبدیل کرنے کے لیے کوئی خاص آپشنز بھی موجود نہیں ہیں کیونکہ آزاد معیشتوں میں سمتوں کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں اور ان پر حکومتوں کا زیادہ کنٹرول نہیں ہوتا۔ اور پھر یو کرین کی جنگ نے حالات کو قابو سے باہر کردیا ہے۔ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی، دنیا اسی بے یقینی کی صورت حال کا سامنا کرتی رہے گی۔

XS
SM
MD
LG