رسائی کے لنکس

متنازع شہریت قانون: اقوامِ متحدہ نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا


انسانی حقوق کونسل نے متنازع شہریت قانون کے خلاف فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ بھارت نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)
انسانی حقوق کونسل نے متنازع شہریت قانون کے خلاف فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ بھارت نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل نے بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف بھارت کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ تاہم نئی دہلی نے عالمی تنظیم کے اس اقدام کو داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو متنازع شہریت قانون پر ملک کے اندر اور باہر سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کونسل نے منگل کو شہریت قانون کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسے بھی شہریت قانون کے خلاف فریق بنایا جائے۔

بھارت کی اعلیٰ عدالت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پہلے ہی 143 درخواستیں زیرِ سماعت ہیں جن میں بعض درخواستیں سیاسی جماعتوں اور بعض عام شہریوں کی ہیں۔

بھارت کی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس سمیت انڈین یونین مسلم لیگ، ریاست تامل ناڈو کی جماعت دراویدا منیترا کازغم اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی شہریت قانون کے خلاف فریق ہیں۔

مذکورہ جماعتوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ شہریت قانون غیر قانونی ہے اور یہ آئین کے سیکیولر تشخص کے منافی ہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں حال ہی میں ہونے والے فسادات پر انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشل بیچلیٹ نے دہلی فسادات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں دکانوں، اسکولوں اور رہائشی گھروں کو جلانا خوف ناک ہے۔

تاہم اب انسانی حقوق کونسل نے شہریت قانون کے خلاف فریق بننے کے لیے باضابطہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی ہے اور ایسا بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

'جب شوہر ہی چلا گیا تو کسی سے کیا کہیں!'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:55 0:00

بھارت کا ردِ عمل

انسانی حقوق کونسل کا متنازع شہریت قانون پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر بھارت نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ایک داخلی معاملہ ہے اور بھارت کی خودمختاری سے متعلق امور پر کسی بھی غیر ملکی تنظیم کو بات کرنے کا حق نہیں ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریت قانون بھارت کی پارلیمان سے منظور ہوا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ بھارت کی خودمختاری سے متعلق امور میں کوئی بھی غیر ملکی مداخلت نہیں کرے گا۔

عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر اشتیاق دانش نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت شہریت قانون کو اپنا داخلی معاملہ بتا کر اقوام متحدہ کو مداخلت سے نہیں روک سکتا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح بھارت نے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں اور ہم نے اقوامِ متحدہ کو اجازت دی ہے کہ وہ ایک واچ ڈاگ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ البتہ یہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے کہ اقوام متحدہ بھارتی سپریم کورٹ میں فریق بن سکتا ہے یا نہیں۔

ادھر ایران نے دہلی کے فسادات کی سخت مذمت کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں دہلی فسادات کو مسلمانوں کے خلاف منظم سازش قرار دیا ہے۔

ان کے بقول ایران صدیوں سے بھارت کا دوست رہا ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، پاکستان، انڈونیشیا اور ترکی بھی دہلی فسادات کی مذمت کر چکے ہیں۔

بھارت نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور ایرانی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے جواد ظریف کے بیان پر احتجاج کیا ہے۔ ایرانی سفیر کو کہا گیا ہے کہ جواد ظریف نے جس معاملے پر بیان دیا ہے وہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

اشتیاق دانش اس معاملے پر کہتے ہیں کہ بھارت ہر معاملے کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر بچ نہیں سکتا۔ متنازع شہریت قانون اور دہلی فسادات کی وجہ سے پوری دنیا میں بھارت کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

دوسری جانب دہلی فسادات پر بحث کرانے کے معاملے پر آج بھی بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا جس کی وجہ سے کارروائی پورے دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

شہریت ترمیم قانون کیا ہے؟

بھارت کی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں ایوان زیریں (لوک سبھا) اور ایوانِ بالا (راجیا سبھا) سے شہریت ترمیمی قانون منظور کرایا تھا۔ جس کے تحت بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ستائے گئے ان چھ مذاہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دینا تھی جو مسلمان نہیں ہیں۔

بھارت کے مسلمانوں نے اس قانون کو خالصتاً مسلمانوں کے خلاف قرار دیا تھا جس کے بعد ہندوؤں کی جانب سے بھی اس قانون کو تعصب پر مبنی قرار دیا گیا۔

بھارت کے مختلف شہروں میں اس قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران درجنوں افراد ہلاک بھی ہوئے۔

شہریت قانون کے خلاف دارالحکومت نئی دہلی میں اُس وقت شدت آئی جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت میں موجود تھے اور نئی دہلی میں شہریت قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔

یہ جھڑپیں ایک ہفتے تک جاری رہیں جس کے دوران 40 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد دکانوں، گھروں، مساجد و مدرسوں کو نذر آتش کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG