رسائی کے لنکس

قبرص کو متحد کرنے کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں


قبرص کو متحد کرنے کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں
قبرص کو متحد کرنے کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں

بات چیت کی ناکامی نہ صرف جزیرے کے مستقل بٹوارے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی امیدیں بھی ختم کر سکتی ہے

سال بھر کی بات چیت میں تھوڑی سی پیش رفت کے بعد، قبرص کو متحد کرنے کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہیں۔ تاہم جمعرات کے روز جنیوا میں ہونے والے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی اقوام متحدہ میزبانی کرے گا۔ بات چیت کی ناکامی نہ صرف جزیرے کے مستقل بٹوارے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی امیدیں بھی ختم کر سکتی ہے۔


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون منقسم جزیرے کو متحد کرنے کے لائحہ عمل کے اوقات کار کو مقرر کرنے کے بارے میں ترک اور یونانی قبرصی رہنماؤں کے ساتھ جنیوا میں بات چیت کریں گے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ نے سال بھر سے زیادہ عرصے سے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے اور مبصرین کے مطابق اس میں تھوڑی بہت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔


تاہم کارنیگی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اور ترکی میں قائم آدم نامی تحقیقی گروپ کے سربراہ سی نان اُل جن، نے خبردار کیا ہے کہ

جزیرے کو متحد کرنے کے لئے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔

اُل جن کہتے ہیں کہ اِس مسئلے کے حل کے لئے بین الاقوامی برادری کی جانب سے یہ آخری کوشش ہو گی۔ پہلے بھی سن دو ہزار چار میں ایک ایسی ہی کوشش ہو چکی ہے جو ناکام رہی تھی۔ اور اب سن دو ہزار گیارہ میں ہم ایک تازہ کوشش دیکھ رہے ہیں۔

قبرص کے صرف یونانی حصے کو ہی عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ سن انیس سو چوہتر میں اس وقت تقسیم ہوا تھا جب یونانی حمایت سے کی جانے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے ترکی نے جزیرے پر چڑھائی کر دی تھی۔ عالمی معاشی پابندیوں کی زد میں آئے ہوئے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔

تاہم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے کی جانے والی حالیہ کوششیں مشکلات کا شکار ہیں۔ یونان کے وزیر اعظم جارج پاپیندریو نےجزیرے کو متحد کرنےکے لئے اُس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی کاوشوں کی حمایت کی تھی۔ تاہم اب وہ اسکی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ترکی کی بلکنت یونیورسٹی کے یونانی سکالر لواینِس گریگوریا دس کے مطابق، ’اگرچہ پاپیندریو وہ شخص ہیں جنہوں نے عنان کے پیش کردہ سمجھوتے کی حمایت کرتے ہوئے اپنی ذات کو خطرے میں ڈالا اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ تاہم یونان میں ایک مشکل داخلی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ اب وہ پھر ویسا ہی موقف اختیار کریں گے۔‘
اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ کوفی عنان کے منصوبے کو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوآن کی بھی زبردست حمایت حاصل تھی۔ سن دو ہزار چار میں ہونے والے ریفرینڈم میں اس سمجھوتے کو ترک قبرصیوں نے تو تسلیم کر لیا تھا مگر یونانی قبرصیوں نے اسے مسترد کر دیا ۔

جزیرے پر یونانی قبرصیوں کا علاقہ تو یورپی یونین کا ممبر ہے جبکہ یونین کا رکن بننے کے لئے ترکی کی آرزو، جزیرے کو دوبارہ متحد کرنے سے جڑی ہے۔

تاہم سینئر ترک سفیر سلیم ینیل کا کہنا ہے کہ ترکی اب زیادہ رعایتیں نہیں دے گا۔ ینیل نے کہا کہ ہمیشہ ہی ترکی رعایتیں دیتا آیا ہے، اب بہت ہو چکا، ہم مزید رعایتیں نہیں دیں گے۔ ہم ہر طرح سے آزما چکے ہیں ، ہم جب بھی ایسا کرتے ہیں یونانی قبرصی اسے سمیٹ کر مزید کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم اگر دوبارہ ایسا کریں گے تو وہ پھر اسے جیب میں ڈال کر کسی اور چیز کے لئے کہیں گے۔ یہی بنیادی پالیسی رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی ہم پر دباؤ بڑھانے کے لئے یورپی یونین یا دوسری بڑی مملکتوں پر انحصار کیا ہے ۔ مگر اب اس حربے سے کام نہیں چلے گا۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ موقف میں اتنی بڑی تبدیلی ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طاقت کے توازن میں تبدیلی کاا شارہ دیتی ہے۔

اور جہاں یونانی قبرصی یکم جولائی سن دو ہزار بارہ میں چھ ماہ کے لئے یورپی یونین کی صدارت حاصل کرنے والےہیں ، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے یہی آخری موقع بھی ہو گا۔

XS
SM
MD
LG