رسائی کے لنکس

دنیا میں 11 کروڑ 30 لاکھ افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا


بنگلہ دیش کے ایک پناہ گزین کیمپ میں روہنگیا پناہ گزین خوراک ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بنگلہ دیش کے ایک پناہ گزین کیمپ میں روہنگیا پناہ گزین خوراک ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں، تنازعات اور اقتصادی عدم استحکام کے باعث گزشتہ برس کے دوران دنیا بھر میں 11 کروڑ 30 لاکھ افراد شدید غذائی بحران کا شکار ہوئے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک و زراعت نے غذائی بحران سے متعلق عالمی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں 53 ممالک غذائی بحران کا شکار ہوئے جن میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں یمن، جمہوریہ کانگو اور افغانستان شامل ہیں اور اُنہیں امدادی خوراک کی فوری ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق 2018 مسلسل تیسرا سال تھا جس کے دوران خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ رہی۔ تاہم 2018 کا سال ایک برس پہلے کے مقابلے میں قدرے بہتر رہا۔ 2017 میں شدید غذائی بحران میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد 12 کروڑ 40 لاکھ تھی۔

جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ ممالک خشک سالی اور سیلاب جیسی موسمیاتی تبدیلیوں سے نسبتاً کم متاثر ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کو بھی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ میانمر میں فوجی کارروائیوں سے اپنی جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش فرار ہونے والے سات لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمانوں کو غذائی بحران کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ جنگ سے متاثرہ ملک شام سے بھی بہت سے افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے جنہیں خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ وینزویلا میں جاری سیاسی اور اقتصادی بحران کے باعث بھی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے نقل مکانی کرنے اور پناہ گزین بننے کا خدشہ موجود ہے۔

خوراک کے بحران کی وجوہات کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنازعات، موسمیاتی تبدیلیاں، قدرتی آفات اور افراط زر اس کا بنیادی سبب ہیں۔

عالمی ادارہ خوراک نے اپنی رپورٹ میں غذائی قلت دور کرنے کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ غذائی وسائل کی ترسیل کے لئے ترجیحات کو بہتر انداز میں ترتیب دینے ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG