رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات کے اداریے: روزگار کا بل، محکمہ ڈاک پر مشکل وقت اورموت پر مکالمہ


امریکی اخبارات کے اداریے: روزگار کا بل، محکمہ ڈاک پر مشکل وقت اورموت پر مکالمہ
امریکی اخبارات کے اداریے: روزگار کا بل، محکمہ ڈاک پر مشکل وقت اورموت پر مکالمہ

اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے امریکی محکمہ ڈاک کو ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے بل کی اس ماہ کےآخر تک ادائگیز کے مسئلے کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی محکمہ ڈاک کئی برسوں سے مالی مشکلات کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ باہمی رابطوں اور اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے کمپیوٹرز استعمال کر رہے ہیں ۔

اخبار ہیوسٹن کرانیکل نے اپنے ایک اداریے میں صدر اوباما کے روز گار کے بل کو موضوع بناتے ہوئےلکھا ہے کہ ہم اس پر یقین کریں گے کہ گزشتہ ایک ہفتے صدر اوباما نے کانگریس کے ایک مشترکہ سیشن اور امریکی عوام کے سامنے روزگار سے متعلق جو بل بیش کیا تھا اس کے نتیجے میں یہ ملک اقتصادی تعطل سے نکلےآئے گا، یہاں مزید روزگار پیدا ہوں گے اور معیشت کوفروغ ملے گا لیکن اگر ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ دونوں صرف اپنے اپنے طریقوں سے مسائل حل کر سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں ۔ اور یہ جمہوریت کو چلانے یا ان ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے جن کی برہمی میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کوئی خیالی نہیں ہے ۔ صدر نے بل پیش کر دیا ہےا ور اب کانگریس کو نیک نیتی سے قانون سازی کرنی چاہیے ۔ یعنی بحث اور مفاہمت سے۔ صدر اوباما کہہ رہے ہیں کہ ا س بل میں وہ تجاویز ہیں جن پر ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں ماضی میں متفق ہو چکے ہیں۔ اور اب معقولیت کی بات یہ ہے کہ ان متفقہ نکات کا تعین کرتے ہوئے اس عمل کا آغاز کیا جائے ۔

اور اخباراپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ اگر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر کام نہ کیا گیا تو نتیجہ صرف اور صرف یہ ہو گا کہ موجودہ حالات برقرار رہیں گے ہم کسی نئی کساد بازاری کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔

اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے امریکی محکمہ ڈاک کو ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے بل کی اس ماہ کےآخر تک ادائیگی کے مسئلے کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی محکمہ ڈاک کئی برسوں سے مالی مشکلات کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ باہمی رابطوں اور اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے کمپیوٹرز استعمال کر رہے ہیں اور اس کا ایک اور سبب کچھ کمزور قانونی ضابطے اور لیبر اگریمنٹس بھی ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ وفاقی قانون کے تحت محکمے کو نئے کاروباری ادارے مثلاًٍ بنکنگ سروسز میں اضافے اور ٹکٹوں کی قیمتیں افراط زر کی شرح سے زیادہ بڑھانے کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس پوسٹل سروس کو اپنی ڈاک کی ترسیل میں کمی کرتے ہوئے اسے ہفتے میں پانچ دن کرنے کی بھی اجازت پر تیار نہیں ہے۔ یعنی اسے اپنے بجٹ کو متوازن رکھنے کے لیے ڈاک یا سروسز کی قیمتوں میں اضافے یا سروسز میں کمی کر کے اخراجات میں کمی کے معمول کے اقدامات اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔

لیکن اخبار لکھتا ہے کہ اب جب کہ ادارے کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور اسے اس ماہ کے آخر میں اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی صحت کی مد میں پانچ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے بلوں کی ادائیگی کرنا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو کانگریس اس ادارے کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اس کی مالی اعانت کرے ،اور اپنے مالی وسائل خود پیدا کرنے کی راہ میں حائل قانونی مشکلات دور کرے یا اسے اپنے انتظامی اور مالی امور کے فیصلے خود کرنے کی اجازت دے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ ڈاک کے حجم کی تاریخی طور پر کم ترین سطح کے باوجود اگر ہفتے میں چھ دن ڈاک کی تقسیم کواس ملک کی ایک ضرورت خیال کیا جاتا ہے، تو یہ ایک پبلک سروس ہے جس کی مالی اعانت کی جانی چاہیے، چاہے وفاقی حکومت کو کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو ۔ لیکن اگر محکمہ ڈاک کو کانگریس کی مدد کے بغیر قائم رہنا ہےتو اسے مزید خود اختیاری دینی چاہیے ، یعنی ڈاک کے حکام کو ڈاک کی ترسیل کے دن طے کرنے ،ڈاک کے نرخ مقرر کرنے اور نئے اختراعی طریقوں مثلاً انٹرنیٹ سروسز پر غور کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، جس سے وہ اگلی صدی کے لیے اپنا مشن از سر نو متعین کر سکے گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ مزید خود مختاری حاصل ہونے سےاسے اپنے مالی وسائل پیدا کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے اور کانگریس کو یہ فائدہ ہو گا کہ اسے ڈاک کے حکام کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کا تردد نہیں کرنا پڑے گا اور محکمہ اپنے غلط فیصلوں کے نقصانات کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائے گا۔

اور اب ،۔۔۔۔ آئیے موت پربات کریں ، یہ ہے اخبار نیو یارک ٹائمزکے ادارتی صفحے پر چھپنے والے ایک مضمون کا عنوان جس میں مضمون نگار لکھتا ہے کہ اگرچہ میڈیکل سائنس ثابت کر چکی ہے کہ موت زندگی کی ایک بڑی حقیقت ہے جس سے گریز ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود موت انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ بڑے پیمانے پر ہو جیسے گزشتہ ہفتے صومالیہ کے قحط زدہ پناہ گزینوں یا کینیا میں گیسولین حاصل کرنے کی کوشش میں شعلوں کی لپیٹ میں آنے والے لوگوں کو پیش آئی۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ اموات، آنے والی اموات، پالیسی کے نقطہ نظر سے ہونےوالی اموات اور ان اموات کے بارے میں کی جانے والی بحث بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتی ۔

اخبار لکھتا ہے کہ اس ہفتے بہت سا وقت اس بحث پر صرف ہوا کہ کس کو مارنا یا غالباً کس کو مرنے دینا درست ہے اور کس کو نہیں ۔ مثلاٍ اوباما انتظامیہ میں ایک اعلی سطح کی بحث اس بارے میں ہوئی کہ یمن اور صومالیہ میں کس قسم کے اسلام پرست عسکریت پسندوں کو مارنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو مارنا درست ہے لیکن کیا زمین پر لڑنے والے سپاہیوں کو ہلاک کرنا درست ہے ۔جب کہ اندرون ملک بھی ایسی بحث کا سلسلہ جاری رہا مثلاً جارجیا کے ایک مکین ، Troy Davis کی طے شدہ سزائے موت کے خلاف پٹینشز کا ایک سلسلہ، اسی طرح ،ٹکساس میں دہرے قتل کے ایک مجرمDuane Buck کی سزائے موت پر یہ بحث کہ اس کی سزا میں نسلی تعصب کا عنصر موجود تھا اور اس بحث کے نتیجے میں اس کی سزا پر عمل درآمد کا روک دیا جانا، یہ سب کچھ اس بحث کے ضمرےمیں آتے ہیں کہ کس کو مرنے دیا جائےا ور کس کو نہیں ۔

اخبار لکھتا ہے کہ حد تو یہ ہےکہ یہ موضوع سیاسی فضا میں بھی شامل رہا مثلاًگزشتہ ہفتے ری پبلکن صدارتی نامزدگی کے امیدوار ران پال سے ایک مجمع میں یہ موضوع اس فرضی سوال کی شکل میں سامنے آیا کہ اگر کوئی صحت مند نوجوان اپنی ہیلتھ انشورنس نہیں خریدتا ، اور وہ کسی طبی پیچیدگی کے باعث کومے میں چلا جاتا ہے اور اسے مہنگی طبی دیکھ بھا ل کی ضرورت ہے تو اس کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔

اخبار لکھتا ہے کہ اس سوال پر ران پال کا یہ جواب بھی، کہ آزادی کا صحیح مطلب یہی ہے کہ آپ کو وہ کرنے دیا جائے جوآپ کرناچاہتے ہیں، اسی بحث کےضمرے میں آتا ہے کہ کس کو مرنے دیا جائے اور کس کو نہیں۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ اس سوال پر کہ کیا معاشرہ اس نوجوان کو مرنے دے؟ کانگریس مین کی بجائے مجمع کی طرف سے ایک بڑی سی ہاں یقینی طورپر ایک ممکنہ موت کی کھلے دل سے اجازت کا ایک تکلیف دہ جواب تھا۔

XS
SM
MD
LG