رسائی کے لنکس

'پیڈز ایسے چھپا کردیئے جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی حرام شے ہو'


ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں اکثر خواتین کو اپنی ذاتی ہائی جین کے لئے درکار سینیٹری پیڈز تک رسائی حاصل نہیں، مگر اس بنیادی ضرورت کے بارے میں بات کرنا ہی شرمناک سمجھا جاتا ہے۔
ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں اکثر خواتین کو اپنی ذاتی ہائی جین کے لئے درکار سینیٹری پیڈز تک رسائی حاصل نہیں، مگر اس بنیادی ضرورت کے بارے میں بات کرنا ہی شرمناک سمجھا جاتا ہے۔

'گھر کے مردوں کی عادت ہوتی ہے پوچھنا، یہ جتانا کہ یہ سحری میں اٹھ کیوں نہیں رہی، نماز کیوں نہیں پڑھ رہی۔ یہ موضوع اب بھی بہت سے گھرانوں میں ایک ٹیبو ہے'.

پاکستان اور بھارت سمیت کئی معاشروں میں ایک موضوع پر خاموشی کا پردہ اختیار کرنے کے مشورے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے سب لڑکیوں کو سننے کو ملتے ہیں۔ وہ ہر مہینے کے چند دن چپ چاپ ایک جسمانی بے آرامی کی کیفیت سے گزرتی ہیں۔ جو بیشتر کے لئے تکلیف دہ اور اکثر کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ اس جسمانی حالت کو اکثر اوقات 'ناپاکی' اور 'شرمناکی' قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق ان کی صحت اور مستقبل میں بننے والے خاندان سے ہوتا ہے، پھر بھی انہیں اس معاملے پر سرگوشیوں میں، چھپ چھپا کر، چپ رہنے کی ہدایت پر، ملنے والی آگاہی مکمل اور مفصل نہیں ہوتی۔اس موضوع کو اس قدر ڈھانک کر برتا گیا ہے کہ اکثر اوقات مائیں بھی بیٹیوں سے اس معاملے پر بات کرنا آسان محسوس نہیں کرتیں۔ اکثر خواتین کو اپنی بنیادی ہائی جین کے لئے درکار سینیٹری پیڈز تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، مگر اس بنیادی ضرورت کے بارے میں بات کرنا ہی شرمناک سمجھا جاتا ہے۔

لیکن وقت بدل رہا ہے۔ سینیٹری پیڈ کے اشتہارات اب پاکستان میں ٹیلی ویژن سکرین پر نظر آنے لگے ہیں۔ خواتین کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ پردہ پوشی عیبوں کی جاتی ہے، نظامِ قدرت کی نہیں۔ عورت کی صحت اور دنیا کی آبادی کا ایک ایسا نظام جو قدرت نے وضع کیا ہے اور جو چھپ نہیں سکتا اس پر بات نہ کرنا یا اسے عورت کی کمزوری یا عیب تصور کرنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین صحت بھی یہی کہتے ہیں کہ اس موضوع سے متعلق ماوں اور بچیوں کو آگہی دینا ضروری ہے اور اگر کوئی طبی مسئلہ ہو تو مناسب علاج بھی دیر ہونے سے پہلے کروانا ضروری ہے۔

ع مطابق | لفظ ماہواری پر ایسا سکوت کیوں؟| پہلا پروگرام پیر 29 نومبر 2021
please wait

No media source currently available

0:00 0:15:18 0:00

'میری امی اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح کھا رہی تھیں'

ایک بار رمضان میں، رپورٹنگ سے واپسی پر میری ملاقات اپنی دوست سے ہوئی جو نیوز روم ڈیسک پر تھی۔ وہ خاصے غصے میں دکھائی دے رہی تھی۔ جب وجہ معلوم ہوئی تو مجھےسمجھ میں آیا کہ جس صورتحال سے وہ دوچار ہوئی ہے، اس سے کتنی ہی خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ ماہواری کے سبب اس کا روزہ نہیں تھا، وہ فیلڈ رپورٹنگ سے واپسی پر جب دفتر آئی، تواس نے وائس اوور کا کمرہ پانی پینے اور کچھ کھانے کے لئے سب سے بہتر سمجھا۔ لیکن جب اس نے کھانا شروع کیا تو وہاں ایک مرد کولیگ آگئے اور انھوں نے با آواز بلند کہا کہ آپ نے روزہ نہیں رکھا اور چھپ چھپ کر کھا بھی رہی ہیں، بہت افسوس کی بات ہے۔ جب وہ نیوز روم پہنچی تو اس کے پہنچنے سے قبل ہی یہ خبر وہاں پھیل چکی تھی اور تمام مرد کولیگز اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ جس پر میری دوست کو خاصی شرمندگی محسوس ہوئی۔

ہر وہ لڑکی، جو سن بلوغت کو پہنچے، وہ ماہواری کے مسئلے سےگزرتی ہے۔ کہیں کچھ لڑکیاں جلدی اس کا سامنا کرتی ہیں، تو کچھ تاخیر سے، لیکن ہر عورت واقف ہوتی ہے کہ ان دنوں میں اسے اپنا خیال کیسے رکھنا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پہلی بار ماہواری ہو، تو بہت سی لڑکیاں اس سے لاعلم ہوتی ہیں۔ آج کی نسل تو پھر بہت معلومات رکھتی ہے لیکن اگر تھوڑا پیچھے چلے جائیں، تو کئی نسلیں ایسی پروان چڑھ چکیں جوآج بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھتی ہیں۔ نانی، دادی کے سامنے اگر آج بھی کوئی لڑکی اپنے پیریڈز کے مسائل پر کھل کر بات کرے تو وہ اسے بے شرمی اور بے حیائی تصور کرتی ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ بعد میں اپنی بیٹی یا بہو کو کہہ دیتی ہیں کہ بچی کے مسئلے پر توجہ دے دو لیکن ان کے پاس ٹوٹکوں کی ایک لمبی فہرست ہر وقت موجود رہتی ہےجس سے کئی نسلیں ڈاکٹر تک پہنچنے کے بجائے ان ہی ٹوٹکوں پراکتفا کرتی ہیں۔

فوٹو بشکریہ یونیسیف
فوٹو بشکریہ یونیسیف

"میں کوئی سات یا آٹھ برس کی تھی تو اپنی امی کو ڈھونڈتی ہوئی کچن میں گئی۔ وہ وہاں کچھ کھا رہی تھیں۔ رمضان کے دن تھے۔ میں نے انہیں ایسا کرتا دیکھ کر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا اور سب کو آکر بتایا کہ امی نے اپنا روزہ توڑ دیا ہے۔ میری امی بہت شرمندہ ہوئیں اور سب کو وضاحتیں دینےلگیں۔ آج جب میں اس واقعہ کو یاد کرتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میری امی اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح اس لئے کھا رہی تھیں کہ پیریڈز کے بارے میں بات کرنا یا معلوم ہونا نارمل بات ہی نہیں تھی اور یہ اب بھی ایسا ہی ہے"۔

یہ کہنا ہے زویا انور کا جو اس وقت جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ زویا نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چھٹی جماعت میں تھیں جب ان کے اسکول میں ایک سینٹری نیپکن کمپنی سے کچھ لوگ آئے تھے۔ انھوں نے لڑکیوں کو پیریڈز سے متعلق آگاہی دی تھی اور بعد میں کچھ کتابچے اور پیڈز بھی دئیے تھے جو اسکول کی انتظامیہ نے ان سے واپس لے لئے تھے۔ زویا کے لئے یہ نئی بات تھی پھر بھی انھوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا، لیکن اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے معلوماتی بروشر واپس لے لینا ان کے لئے تجسس کا باعث ضرور بنا۔

میں ساتویں جماعت میں تھی، جب مجھے پیریڈز ہوئے اور میری ٹانگوں میں شدید درد تھا۔ مجھے لگا کہ زیادہ کھیل کود کے سبب کچھ مسئلہ ہوا ہے، پھر گھر جا کر امی کو بتایا۔ پھر احساس ہوا کہ یہ وہی مسئلہ ہے جس کے حوالے سے اسکول میں سنا تھا لیکن میں گھر سے اس کے لئے پہلے سے تیار نہیں تھی۔

تحریم عظیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا وہ بھی ماہواری کے حوالے سے پہلے سے آگاہ نہیں تھیں۔ تحریم بیجنگ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔

انھوں نے بتایاکہ "مجھے یاد ہے کہ میں میٹرک میں تھی جب مجھے پیریڈزہوئے اسکول میں کافی گھنٹے اس بارے میں سوچتی رہی کہ گھر جاکر امی کو کیسے بتانا ہے اور گھر جاکر بھی میں نے کئی گھنٹےاس بارے میں، امی کو کچھ نہیں بتایا، لیکن شام میں جب مجھے محسوس ہوا کہ اب کوئی چارہ نہیں ہے اور اب میرے پاس وقت ختم ہوگیا ہے، تو پھر مجھے انھیں بتانا پڑا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ بات کرنے کا جو مسئلہ میری جانب تھا، وہ ان کی طرف بھی تھا۔ انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ انھیں اپنی بیٹی سےاس بارے میں کس طرح بات کرنی ہے۔ یہ تو انہیں پتہ ہوتا ہے کہ بیٹی ہے۔ اس کے ساتھ یہ سلسلہ شروع ہوگا، لیکن اسے اس حوالے سے کس طرح گائیڈ کریں، یہ انھیں بھی نہیں پتہ تھا۔

بھارت کے ایک گاوں کاٹھی کھیڑا میں سینٹری پیڈز بنانے والی چھوٹی سی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو ابتدا میں مقامی لوگوں کے طنز اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو بشکریہ وی او اے نمائندہ انجنا پسریچا
بھارت کے ایک گاوں کاٹھی کھیڑا میں سینٹری پیڈز بنانے والی چھوٹی سی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو ابتدا میں مقامی لوگوں کے طنز اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو بشکریہ وی او اے نمائندہ انجنا پسریچا

یسریٰ سلیم شادی شدہ ہیں اور جاب بھی کرتی ہیں، ان کے لئے بھی یہ مسئلہ اچانک تھا۔ اس مسئلے سے قبل وہ گلی میں اپنے بھائی اور دوستوں کے ساتھ آزادانہ کھیلتی کودتی سائیکل چلاتی تھیں۔ لیکن پیریڈز کے بعد سب بدل گیا۔ یسریٰ کے مطابق، مجھ سے میری سائیکل لےکر ایک کونے میں رکھ دی گئی۔ میں جب باہر جانے کو کہتی، مجھے کہا جاتا کہ تم رہنے دو، جینز مت پہنو، کھیلو کودو نہیں، باہر گلی میں، دکان پر سودا سلف لینے مت جاؤ۔ مجھے برا لگتا تھا کہ سب کو باہر جانے کی اجازت ہے مجھے نہیں، لیکن پھر ابو امی کے درمیان بہت بحث ہوئی اور مجھے سائیکل چلانے کی اجازت ملی۔میں نے اپنی دوستوں سے سنا تھا کہ انھیں پیریڈز ہوئے تو انھیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ میں یہی سوچتی ہوں کہ اگر مجھےاس وقت میری والدہ نے اعتماد دیا ہوتا اور پہلے سے بتایا ہوتا تو میں اتنے اسٹریس میں نہ جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی چھوٹی بہنوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا تاکہ جومیرے ساتھ ہوا ہے، وہ اس سے نہ گزریں۔

نیپال کے کچھ علاقوں میں مقامی رسوم کے مطابق عورتوں کو پیریڈز کے دوران اپنے گھر سے دور الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔فوٹو رائٹرز
نیپال کے کچھ علاقوں میں مقامی رسوم کے مطابق عورتوں کو پیریڈز کے دوران اپنے گھر سے دور الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔فوٹو رائٹرز

پیریڈز سے متعلق آپ نے ایسا کیا سنا، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؟

زویا کے مطابق انہوں نے شروع سے سن رکھا ہے کہ ماہواری کے پہلے روز اور ان دنوں میں نہیں نہانا چاہئے۔ اسی لئے وہ آج بھی پیریڈز ہونے سے پہلے نہا لیتی ہیں۔ وہ اب جانتی ہیں کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن پھر بھی یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ سی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں ٹھنڈی چیزیں جیسے آئسکریم کھانے سے بھی منع کیا گیا تھا۔

یسریٰ ماضی کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ خاندان میں ایک مہندی کی ایک تقریب میں وہ گئیں تو انھوں نے وہاں سب کزنز کو مہندی لگاتے دیکھا تو کہا کہ وہ بھی مہندی لگانا چاہتی ہیں لیکن خاندان کی بڑی عمر کی خواتین نے انھیں یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ابھی ان کے ماہواری کے دن ہیں جب وہ پاک ہوں گی تو یہ مہندی ہاتھ پر لگی رہ جائے گی جب تک یہ نہیں چھوٹے گی وہ پاک نہیں ہوسکیں گی۔ انہیں ان خاص دنوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے، مخصوص چیزیں کھانے پینے سے پرہیز کرنے اور نہانے سے منع کرنے کے احکامات سننے پڑے تھے جو آج بھی ان کو یاد آتے ہیں۔

کیا آج بھی اس موضوع پر بات کرنا پہلے کی طرح مشکل ہے؟

بالی ووڈ اداکار اکشے کمار ممبئی میں اپنی فلم پیڈ مین کے میوزک لانچ کے موقعے پر اپنی اہلیہ ٹوئینکل کھنہ اور اداکارہ رادھیکا آپٹے کے ساتھ ۔۔20 دسمبر 2017 ۔ فوٹو رائٹرز .
بالی ووڈ اداکار اکشے کمار ممبئی میں اپنی فلم پیڈ مین کے میوزک لانچ کے موقعے پر اپنی اہلیہ ٹوئینکل کھنہ اور اداکارہ رادھیکا آپٹے کے ساتھ ۔۔20 دسمبر 2017 ۔ فوٹو رائٹرز .

تحریم عظیم کے مطابق، "معاشرے میں اس موضوع پر بہت کم بات ہوتی ہے اور اسکی وجہ شاید شرم ہے۔ کہتے ہیں کہ عورت لفظ کا مطلب ہے چھپی ہوئی چیز تو انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اس وجہ سے ہمیں اسکے ہر مسئلے کو چھپانا ہے، چاہے وہ اس کے اوپر ہونے والا کسی قسم کا تشدد ہو یا پیریڈز ہوں۔ اسی لئے ہمارے پیڈز ہمیں پیک ہوکر ملتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جب میں لاہور کے ایک نیوز روم کی ویب سائیٹ پر بلاگز اور فیچر سیکشن ہینڈل کرتی تھی تو میرے پاس ایک بھارتی فلم(پیڈ مین) کا بہت اچھا لکھا ہوا ریویو آیا۔ میں نےاسے پبلش کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے معلوم ہوا کہ چینل کے کرتا دھرتا لوگوں نے کہا کہ ہماری ویب سائیٹ پر ایسی چیز کیسے چھپ سکتی ہے؟ پھر کہا گیا کہ اس میں سے پیڈ لفظ نکال دیں تو میں نے سوچا کہ اگر یہ لفظ ہی نکال دوں تو پھر بچتا کیا ہے؟"


زویا انور کہتی ہیں کہ "یہاں کوئی شراب خریدنے جائے تو اسے براؤن پیپر میں لپیٹ کر دی جاتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بہت ہنسی آتی ہے کہ ہمیں تو ہمارے پیڈز بھی خاکی لفافوں میں چھپا کے لپیٹ کر ایسے دئیے جاتے ہیں جیسے یہ کوئی معیوب شے ہو۔ پہلے میں ایسے خرید لیا کرتی تھی۔ اب منع کر دیتی ہوں کہ بھئی ایسے ہی دیدو کوئی بھونچال نہیں آجائے گا۔ لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اب بھی اس مسئلے پر خواتین کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ لطیفے تک بنائے جاتے ہیں کہ اگر کسی لڑکی کا موڈ خراب ہے تو سمجھ لو کہ اسے پیریڈ ز ہوں گے، تب ہی اسکے 'موڈ سوئنگز' چل رہے ہیں اور یہ صرف اس لئے ہے کہ اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی ایک 'ٹیبو' بنادیا گیا ہے۔

بھارت کے ایک گاوں کاٹھی کھیڑا میں سینٹری پیڈز بنانے والی چھوٹی سی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو ابتدا میں مقامی لوگوں کے طنز اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو بشکریہ وی او اے نمائندہ انجنا پسریچا.
بھارت کے ایک گاوں کاٹھی کھیڑا میں سینٹری پیڈز بنانے والی چھوٹی سی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو ابتدا میں مقامی لوگوں کے طنز اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو بشکریہ وی او اے نمائندہ انجنا پسریچا.

یسریٰ سلیم کے مطابق، جس طرح کی مڈل کلاس فیملی میں ہم پروان چڑھی ہیں، جیسی ہماری مائیں ہیں، ایسا نہیں تھا کہ ہم پر روک ٹوک تھی لیکن وہ بات اب بھی ہمارے اندر کہیں ہے کہ اس پر کھل کربات نہیں کرنی, لیکن میں نے کئی ایسے خاندان دیکھے ہیں, جہاں ہر مرد کو پتہ ہوتا ہے کہ عورتوں کے یہ مسائل ہیں کیونکہ آپ کی بیوی ہے، ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے، لیکن اسکے باوجود ان کی عادت ہوتی ہے پوچھنا، یہ جتانا کہ یہ سحری میں اٹھ کیوں نہیں رہی، نماز کیوں نہیں پڑھ رہی۔ لیکن اسکے باوجود یہ موضوع ابھی دیسی گھرانوں میں ایک 'ٹیبو' ہے.

ڈاکٹر ماہواری پر کیا رائے رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر صغریٰ عباسی،کنسلٹنٹ گائنا کولوجسٹ ہیں اور پندرہ برس سے زائد کا تجربہ رکھتی ہیں۔ وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پندرہ سے اکیس برس کی غیر شادی شدہ لڑکیوں کا ایک اہم مسئلہ پولی سیسٹک اووری سینڈروم ہے، جسے پی سی اوز بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جیسے موٹاپا، ماہواری کا بند ہوجانا (دو سے تین ماہ)، چہرے پر بہت سے دانے نمودار ہوجانا،جسم پر بالوں کا اگنا، الٹر ساؤنڈ میں کسی سسٹ (Cyst) کا نمودار ہوجانا، ہارمونز بڑھ جانا۔ ان سب علامات میں سے دو سے تین چیزیں جس بھی لڑکی یا خاتون میں ظاہر ہوں تو اسے ہم پی سی اوز کہتے ہیں۔یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں ماہواری بہت مشکل سے کنٹرول میں آتی ہے ۔

ڈاکٹر صغریٰ کے مطابق اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی لڑکی جس کی عمر گیارہ یا تیرہ برس ہے اور اسے پیریڈز شروع ہوئے ہیں، تو ان کی مائیں ڈاکٹر کے پاس لے آتی ہیں کہ اسے بہت کم ہوئے ہیں یا ہوئے، تو اب تاخیر ہوگئی ہے تو انھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ ابھی آغاز ہے اس میں کسی ٹیسٹ یا دوا کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ابھی جسم میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں اور ہارمونز تبدیل ہورہے ہوتے ہیں، تو اسی وجہ سے کبھی ماہواری کم ہوتی ہے، تو اسے ہم نارمل ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر اس عمر میں بہت زیادہ بلیڈنگ ہورہی ہو، تو دوا کے ذریعےاس بلیڈنگ کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

نیپال کے کچھ علاقوں میں مقامی رسوم کے مطابق عورتوں کو پیریڈز کے دوران اپنے گھر سے دور الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ فوٹو رائٹرز
نیپال کے کچھ علاقوں میں مقامی رسوم کے مطابق عورتوں کو پیریڈز کے دوران اپنے گھر سے دور الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ فوٹو رائٹرز

لیکن سیلف میڈیکیشن ہو یا ٹوٹکوں پر عمل کرنا اس پر ان پڑھ لوگوں کی کیا بات کی جائے، یہ کام پڑھے لکھے لوگ بھی کرتے ہیں جس میں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ میں نے یہ دوا کھائی تھی تم بھی یہ کھا لو، کیونکہ لوگوں کو فورا نتائج چاہیئے ہوتے ہیں، کیونکہ جب آپ معالج کے پاس آئیں گے تو وہ پہلے ٹیسٹ کروائے گا پھر اسکی بنیاد پر ہی دوا آپکو دے گا۔ لیکن یہاں لوگ دوسروں کے کہنے پر چلتے ہیں۔

ہر شخص کا جسم اور صحت، بیماری ایک دوسرے سے مختلف ہے، اس میں اگر کوئی خاتون دوسری کے کہنے پر دوا کھا لے گی تو یہ اس کے لئے مشکل بھی پیدا کرسکتی ہے۔ جو بیماری ہے وہ وہی رہے گی بلکہ مزید بڑھے گی اور مزید خراب ہو سکتی ہے اور جب آپ ہمارے پاس اس بیماری کے ساتھ آئیں گے تو اسے ٹھیک ہونے میں مزید وقت اور انتظار کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر صغریٰ کے مطابق، لڑکیوں کو بچپن سے ہی صحت بخش غذا کھانے کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جنک فوڈ، سوفٹ ڈرنکس،چاکلیٹس، چپس، ایسی چیزیں کم سے کم استعمال کریں تاکہ موٹاپے سے بچ سکیں۔ ماہواری کا وقت پر نہ ہونا اور پی سی اوز ہونے کی ایک وجہ موٹاپا ہے۔ کیونکہ اگر وزن بچپن سے بڑھنا شروع ہوجائے، تو ہارمونز کا ایب نارمل ہونا پھر عام سی بات ہے۔ تاہم وہ عورتیں جوبیس سےچالیس برس کی عمر کی ہیں اور شادی شدہ ہیں اور کسی قسم کا کوئی مانع حمل طریقہ استعمال نہیں کر رہیں یا بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا رہیں اور اسکے باوجود انکی ماہواری بند ہے تو انھیں لازمی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چائیے۔

اسکے علاوہ وہ خواتین جو 20 برس سے زائد عمر کی ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں۔ موٹاپے کا شکار ہیں یا نہیں ہیں، ان کے جسم پر غیر ضروری بال ہیں، چہرے پر دانے ہیں ، انہیں اگر ماہواری کئی کئی ماہ نہیں ہورہی، تو انہیں بھی لازمی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG