رسائی کے لنکس

برما: اصلاحات کی تعریف، مسلمانوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ


صدر اوباما اور صدر تھیان سین وائٹ ہاؤس ملاقات کے دوران
صدر اوباما اور صدر تھیان سین وائٹ ہاؤس ملاقات کے دوران

صدر اوباما نے سیاسی اصلاحات نافذ کرنے میں برما کی طرف سےحاصل کردہ پیش رفت پر صدر تھیان سین کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا۔ ساتھ ہی متنبہ کیا کہ مسلمان اقلیت کو ہدف بنانے والے نسلی اور گروہی تشدد کو بند کیا جائے

امریکی صدر براک اوباما نے پیر کے روز برما کے صدر کی طرف سے سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کے حوالے سے حاصل کردہ پیش رفت پر صدر تھیان سین کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا۔ ساتھہ ہی، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ برما میں مسلمان اقلیت کو ہدف بنانے والے نسلی اور گروہی تشدد کو بند کیا جائے۔

مسٹر اوباما نے یہ بات پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد برما کے صدر تھیان سین کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں کہی۔ تھیان سین ایک سابق جنرل ہیں جو پانچ عشروں کے بعد ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات کےنتیجے میں 2011ء میں صدر بنے۔

امریکی صدر نے اپنے ہم منصب کو سراہتے ہوئے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد، تھیان سین نے امریکہ کے ساتھ تناؤ میں کمی لانے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ مسٹر تھیان سین نے ’حقیقی کوششیں‘ کرتے ہوئے کئی دہائیوں سے جاری نسلی لڑائیوں کو بند کرایا جن کے باعث برما کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں حائل تھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ برما کے صدر نے عشروں سے جاری فوجی اقتدار کے دوران اسیر کیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے میں پیش رفت دکھائی۔

صدر تھیان سین نے کہا کہ وہ وائٹ ہاؤس کی دعوت ملنے پر ممنون ہیں اور اس بات سے اتفاق کیا کہ ایسے میں جب وہ مزید جمہوری اصلاحات جاری کرنے کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں، اُن کے ملک کو اہم چیلنج درپیش ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے ملک میں پھیلی ہوئی غربت کے باعث اس کام کے سلسلے میں سخت مشکلات حائل ہیں۔

سرگرم کارکنوں نے تھیان سین کے دورے پر احتجاج کرتے ہوئے برما میں جاری شہری محاذ آرائی کا حوالہ دیا ہے۔ پیر کو وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج ہوا جس میں مظاہرین نے برما کی مسلمان آبادی کے خلاف نسلی تشدد کو بند کرانے کے مطالبے سمیت کئی کتبے اٹھا رکھے تھے۔

برما کے صدر تھیان سین نے پیر روز وائٹ ہاؤس میں صدر اوباما سے ملاقات کی، اور اِس طرح وہ تقریباً نصف صدی کے دوران امریکہ کا دورہ کرنے والے برما کےپہلے راہنما ہیں۔

امریکہ اِس بات کا خواہان ہے کہ عشروں سے جاری فوجی حکمرانی کےبعد اصلاحات نافذ کرنے پر اُنھیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔

صدر براک اوباما کی طرف سے برما کے اپنے ہم منصب کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی دعوت تھیان سین کو ایک سفارتی تقویت دینے کے مترادف ہے، جنھیں امریکہ نے گذشتہ برس ہی غیر ملکی حکام کی اُس فہرست میں سے ہٹادیاتھا، جِن پر امریکہ داخل ہونے کی ممانعت عائد ہے۔

مسٹر اوباما نے برما میں کی جانے والی اصلاحات کو تسلیم کرنے کے اظہار کے طور پر گذشتہ نومبر میں برما کا دورا کیا تھا جو کہ کسی برسر اقتدار امریکی صدر کی طرف سے برما کا پہلا دورہ تھا۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما برما جیسے ممالک کی حمایت کے عزم پر قائم ہے، جنھوں نے ’اصلاحات کو گلے سے لگانے‘ کا فیصلہ کیا۔
تاہم، انسانی حقوق سے متعلق گروپ مسٹر اوباما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ برما کو ایک غلط پیغام بھیج رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ مسٹر تھیان سین کو وائٹ ہاؤس کی دعوت دینا اُن پر سیاسی منحرفین کو رہا کرنے اور برما کی نسلی اقلیتوں کے خلاف سرزد ہونے والی خلاف ورزیوں کو بند کرنے کےسلسلے میں جاری دباؤ میں کمی کا باعث بنے گا۔

کچھ قانون سازوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشویش کے قابل اِن معاملات پرتوجہ مبذول کرانے کی خاطر مسٹر تھیان سین پردباؤ قائم رکھنے کی غرض سے وہ برما سےامریکی تعزیرات اٹھانے کے عمل میں دھیرج سے کام لیں گے۔
XS
SM
MD
LG