رسائی کے لنکس

انسانی حقوق پر چین اور امریکہ کے اختلافات


امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن ، جو بدھ کو بیجنگ پہنچی ہیں، کا کہنا ہے کہ گوانگ چینگ کا اپنی پناہ گزینی ختم کرنے کا اقدام "ان کے اپنے فیصلے اور امریکی اقدار" کا عکاس ہے

انسانی حقوق کا معاملہ چین اور امریکہ کے درمیان تنازعات کی وجہ رہا ہے۔ امریکہ چین پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی آزادیوں اور حقوق کا احترام کرے جب کہ چین اس نوعیت کی تلقین کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت گردانتا ہے۔

گزشتہ ہفتے چینی حکومت کے ایک ناقد نابینا وکیل کے حکومتی نظر بندی سے فرار اور بیجنگ کے امریکی سفارت خانے میں پناہ لینے کے بعد جہاں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے مستقبل پر سوال کھڑے ہوئے ہیں وہیں انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا امریکی دعویٰ بھی عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

چین گوانگ چینگ چھ دن امریکی سفارت خانے میں پناہ گزین رہنے کے بعد بدھ کو اپنی مرضی سے وہاں سے چلے گئے تھے اور اب بعض اطلاعات کے مطابق دارالحکومت کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن ، جو بدھ کو بیجنگ پہنچی ہیں، کا کہنا ہے کہ گوانگ چینگ کا اپنی پناہ گزینی ختم کرنے کا اقدام "ان کے اپنے فیصلے اور امریکی اقدار" کا عکاس ہے۔

لیکن چین نے امریکہ سے اس عمل پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی ویمن نے کہا ہے کہ چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے اور چین کے ایک شہری کو اس طرح "بے ضابطہ طریقے" سے سفارت خانے میں رکھنے پر واشنگٹن کو بیجنگ حکومت سے معافی مانگنی چاہیے۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ حکام اس پورے واقعے کی تحقیقات کریں گے اور گوانگ چینگ کو نظر بندی سے فرار کرانے میں مدد دینے والے تمام افراد کو قرار واقعی سزا دی جائےگی۔

واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارے 'کیٹو انسٹی ٹیوٹ' کے سینئر فیلو ڈوگ بینڈو کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے اس نوعیت کے واقعات ہمیشہ سے ایک چیلنج رہے ہیں۔ ان کے بقول "امریکہ بنیادی انسانی حقوق کا علم بردار رہا ہے اور جمہوریت کو فروغ دیتا ہے۔ اور جب آپ کسی دوسرے اہم ملک کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں تو ان اصولوں سے روگردانی نہیں کرسکتے"۔

بیجنگ کے امریکی سفارت خانے سے گوانگ چینگ کے چلے جانے کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ بیجنگ میں رواں ہفتے ہونے والے معاشی اور سیاسی امور پر دوطرفہ مذاکرات میں امریکی وزیرِ خارجہ کلنٹن اور وزیرِ خزانہ ٹموتھی گیتھنر اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ اہم موضوعات پر نتیجہ خیز بات چیت کرسکیں گے۔

بینڈو کا کہنا ہے کہ امریکہ بیجنگ حکومت کو اپنے عوام کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا اور اگر وہ ان کوششوں کو دو طرفہ معاملات میں مرکزی اہمیت دے گا تو پھر اور کسی معاملے پر پیش رفت کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

ان کے بقول، مناسب طرزِعمل یہ ہوگا کہ انسانی حقوق کے معاملے پر بھی گفتگو کی جائے لیکن دونوں ممالک اس قابل بھی ہوں کہ جب انہیں سوڈان، شمالی کوریا، ایران، معاشی معاملات یا دیگر اہم موضوعات پر گفتگو مطلوب ہو تو وہ انسانی حقوق پر موجود اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ سکیں۔

لیکن انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کی چینی شاخ کی سربراہ سوفی رچرڈسن کہتی ہیں کہ انسانی حقوق کے مسئلے کو چین اور امریکہ کے باہمی معاملات سے علیحدہ سمجھنا ایک غلطی ہے۔ ان کے بقول تمام معاشی معاملات اور تجارت کی بنیاد بھی بعض بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر ہے۔

سوفی رچرڈسن کا کہنا ہے امریکہ نے گوانگ چینگ جیسے بعض معاملات پر یقیناً سخت موقف اپنایا ہے لیکن ان کے بقول چین میں انسانی حقو ق کے معاملے پر اوباما انتظامیہ کی مجموعی کارکردگی اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے۔

وزرا کے ہمراہ چین پہنچنے والے امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گوانگ چینگ، اور اس سے قبل چونگ کنگ شہر کے میئر بوژیلائی کے معاملے پر چینی حکومت کے ردِ عمل سے چین میں مرکزی اور مقامی حکام کے درمیان رابطوں کے بڑھتے ہوئے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔

اوباما انتظامیہ کےایک عہدیدار نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا ہےکہ نابینا گوانگ چینگ نے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا الزام مقامی حکام پر عائد کیا ہے اور وہ اپنے تحفظات کے ازالے کے لیے مرکزی حکومت کی مداخلت کے خواہاں تھے۔

غالباً اسی شکایت کے پیشِ نظر مرکزی حکام نے مسٹر چین اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ شینگڈونگ کے مقامی حکام کے غیر قانونی سلوک کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔

سوفی رچرڈسن کہتی ہیں کہ گوانگ چینگ جیسے بعض دیگر افراد گو کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کی مخالفت نہیں کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔

ایسے واقعات کی بنیاد پر سوفی کو یقین ہے کہ چین میں نظام کی تبدیلی کے لیے عوامی دبائو میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کے بقول چین کی اعلیٰ قیادت کو سماجی نوعیت کے ان مطالبات پر ، جو عدم مساوات، حکام کی بدعنوانی اور جبری خاندانی منصوبہ بندی کے خاتمے کے ہیں، کان دھرنا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ چین کی مرکزی قیادت کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسیوں اور فیصلوں کو زبردستی نافذ کرنے اور ان کے نتائج سے بے نیازی برتنے کا دور جلد ختم ہونے والا ہے۔

XS
SM
MD
LG