رسائی کے لنکس

امریکہ کا یروشلم میں پرانے قونصل خانے کو نئے سفارت خانے میں ضم کرنے کا فیصلہ


یروشلم میں امریکی قونصل خانہ
یروشلم میں امریکی قونصل خانہ

امریکہ نے یروشلم میں اپنے پرانے قونصل خانے کو اسی شہر میں منتقل ہونے والے اپنے نئے سفارتخانے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس اقدام پر فلسطینیوں میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی ہے۔

فلسطینیوں کیلئے، یہ اقدام تعلقات میں مزید سرد مہری کا باعث ہے۔ چند لوگ اِسے فلسطینیوں کیلئے ایک آزاد ریاست کی تمام امیدیں ختم ہونے کی ایک علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اس سال کے آغاز پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر اسرائیلیوں نے صدر کو دعائیں دیں جب کہ فلسطینیوں نے صدر کو برا بھلا کہا۔

اسرائیل میں امریکہ کا نیا سفارتخانہ، پرانے قونصل خانے کو اپنے اندر ضم کر لیگا۔ یہ قونصل خانہ ہمیشہ سے، فلسطینیوں کیلئے امریکہ کے ساتھ رابطے کا ذریعہ رہا ہے۔
اب فلسطینیوں کو، امریکی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمن کے ذریعے امریکہ سے رابطہ کرنا ہوگا۔ یہ تصور ہی بہت سوں کے اندر اشتعال کا باعث ہے، کیونکہ وہ فرائیدمن کو اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھنے والا خیال کرتے ہیں۔

اسرائیلیوں کیلئے، یروشلم کو ایک غیر منقسم دارالحکومت بنانا، ان کے دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کا وعدہ امریکہ نے بہت پہلے کیا تھا جسے صدر ٹرمپ نے پورا کیا ہے۔
اُدھر مشرقی یروشلم میں، جہاں عرب آبادی کی اکثریت ہے، اشتعال اور مایوسی ایک واضح پیغام کی حامل ہے۔ اس بارے میں ’انٹرنیشنل پیس اور کواپریشن سینٹر‘ سے تعلق رکھنے والے، رمی نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’’یہ فلسطینیوں کیلئے ایک بہت ہی بری خبر ہے۔ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں، قونصل جنرل اب وہاں نہیں رہے گا، جس کے معنی ہیں کہ دو ریاستی حل بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ہے‘‘۔
ادھر یہودی اکثریت والے مغربی یروشلم میں، اس بات کی کوئی تردید نہیں کر سکتا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے، مگر ساتھ ہی یہ عملی بھی ہے۔

اس بارے میں، ’یروشلم سینٹر فور پبلک افیئرز‘ سے وابستہ ڈین ڈائیکر کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ اقتصادی اور سفارتی إصلاحات کا ایک حصہ ہونے کا اقدام ہے جو کہ وزیر خارجہ کی برسوں کی مروجہ روایت سے الگ ہے، اور وہ یہ تھی کہ فلسطینی اتھارٹی کیلئے ایک الگ قونصل خانہ موجود ہو۔

اس تناؤ کے ماحول میں ایک ساتھ رہنا اب مزید مشکل ہو گیا ہے، اور ایسےمیں دونوں فریق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کا انتظار کر ر ہے ہیں، جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG