رسائی کے لنکس

بھارت امریکی دباؤ پر ایرانی تیل کی درآمد بند کرے گا: رپورٹس


پہلی بار ایسا اشارہ مل رہا ہے کہ بھارت امریکی دباؤ کے آگے جھک گیا ہے اور ایران سے تیل کی درآمد میں تخفیف کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق، تیل اور پیٹرولیم کی وزارت نے ریفائنریز سے کہا ہے کہ وہ ایران سے خام تیل کی درآمد میں نومبر تک تخفیف کریں یا بالکل ہی ختم کر دیں۔

وزارت نے جمعرات کے روز ریفائنریز کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور انھیں یہ ہدایت دی۔

رپورٹوں میں معاملات سے واقف ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے ریفائنریز سے کہا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ لہٰذا، وہ کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رہیں۔

بھارت کے دورے پر آنے والی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے بدھ کے روز نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ بھارت کے لیے اہم ہے کہ وہ ایرانی تیل کی درآمد بند کر دے۔ تاہم، انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ بھارت کو اس کی اجازت دے گا کہ وہ افغانستان سے تجارت کے لیے ایران کے چابہار پورٹ کا استعمال کرے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق، نکی ہیلی نے مودی سے ملاقات کے بعد دو اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر پابندیاں نافذ ہو رہی ہیں اور امریکہ کے ساتھ بھارت کے مضبوط تعلقات کے پیش نظر ہمیں امید ہے کہ وہ ایران کے تیل پر اپنا انحصار کم کرے گا۔

یاد رہے کہ امریکہ نے منگل کے روز ایران سے تیل درآمد کرنے والے بھارت سمیت تمام ملکوں سے کہا ہے کہ وہ 4 نومبر تک درآمد بند کر دیں ورنہ ان پر بھی پابندی نافذ ہو سکتی ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار ظفر آغا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور امریکہ کے مابین حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ ایسے میں نکی ہیلی کا دورہ بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے اور وہ دونوں ملکوں میں پل کا کام کر سکتی ہیں۔

انھوں نے تیل کی درآمد کے سلسلے میں امریکی ہدایت، بھارت اور امریکہ کے مابین وزارت دفاع و خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کی منسوخی اور صدر ٹرمپ کی جانب سے اس بات کا اعادہ کہ بھارت نے متعدد امریکی مصنوعات پر سو فیصد ٹیکس لگا ر رکھا ہے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں نکی ہیلی کا ہندوستان آنا بہت اہم ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں وہ دور ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں جو تجارتی شک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ان کے بھی دور ہونے کے امکانات ہیں۔ ان کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اس سے قبل وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا تھا کہ بھارت صرف اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں تسلیم کرتا ہے، انفرادی پابندیاں نہیں۔ لیکن صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت امریکی مالیاتی نظام کے ساتھ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدام کر سکتا ہے۔ ایران بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

دریں اثنا، امریکہ نے 6 جولائی کو واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے مابین وزارت دفاع و خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کو ناگزیر اسباب سے منسوخ کر دیا ہے۔

ادھر، بھارتی خارجہ امور کی وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس معاملے پر ہم نے امریکی محکمہٴ خارجہ کے اہلکار کا بیان دیکھا ہے۔ بیان بھارت کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ تمام ملکوں کے لیے ہے۔ توانائی کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے حوالے سے، بھارت تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن میں تمام متعلقہ فریق کو شریک کیا جائے گا‘‘۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG