رسائی کے لنکس

امریکی سیاست کا ہنگامہ خیز سال


2010ء کا سال پہلے ہی امریکہ میں سیاسی اعتبار سے ہنگا مہ خیز سال ثابت ہو چکا ہے۔ اب تک تین موجودہ سینیٹرز کو پرائمری انتخابات میں شکست ہو چکی ہے اور پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں مزید حیران کن تبدیلیاں سامنے آئیں گی۔

تازہ ترین حیران کُن سیاسی تبدیلی ریاست الاسکا میں ہوئی۔ ریپبلیکن سینیٹرLisa Murkowski کو سیاسی نووارد جو ملر نے پرائمری انتخاب میں شکست دے دی۔ مِلر کو قدامت پسند ٹی پارٹی کے کارکنوں اور الاسکا کی سابق گورنرسارہ پیلن کی حمایت حاصل تھی۔ پیلن ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے 2008ء میں نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزد کی گئی تھیں۔ وہ اس سال ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر ابھری ہیں کیوں کہ درجنوں قدامت پسند امید وار ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اُنھوں نے واشنگٹن میں قدامت پسندوں کے ایک حالیہ سیاسی اجتماع میں بھی تقریر کی تھی۔ کچھ ریپبلیکنز ان پر 2012ء کے صدارتی انتخا ب میں حصہ لینے کے لیے زور دے رہے ہیں۔

اس سال کے شروع میں ٹی پارٹی کے حامیوں نے ریاست Utah میں نامزدگی کے ریپبلیکن کنونشن میں آزمودہ کار سینیٹر باب بینٹ کی شکست میں مدد دی۔ انھوں نے ملک میں کانگریشنل پرائمریز میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ریپبلیکن عہدے دار اچھی طرح منظم اور توانائی سے بھر پور قدامت پسند کارکنوں کی طاقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی آف ورجینیا میں سیاسیات کے ماہرجیرارڈ ایلگزینڈر کہتے ہیں کہ’’موجودہ ریپبلیکن عہدے دار جنہیں چیلنج کیا گیا ہے یا جنہیں ان کے پرائمری انتخاب میں شکست دی گئی ہے، یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا گناہ یہ تھا کہ یا تو انھوں نے درمیانہ موقف اختیار کیا تھا یا وہ بہت زیادہ دائیں بازو کے بجائے ، بائیں بازو کے قریب تر تھے‘‘۔

ٹی پارٹی کی تحریک کو جن چیزوں سے طاقت مِل رہی ہے ان میں وفاقی حکومت کے اختیارات، کانگریس کے طرف سے خرچ میں اضافہ اور قومی قرضے کا بڑھتا ہوا بوجھ شامل ہیں۔ ٹی پارٹی کے حامی صدر اوباما کے اقتصادی بحالی کے منصوبے اور علاج معالجے کےنظام میں اصلاح کے قانون کے سخت مخالف ہیں جو کانگریس میں ڈیموکریٹس نے پاس کیا ہے ۔ ملک بھر میں بہت سے ریپبلیکن پرائمری انتخابات میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی سیاست کا ہنگامہ خیز سال
امریکی سیاست کا ہنگامہ خیز سال

ریپبلیکنز کوامید ہے کہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں قدامت پسند کارکنوں کے جوش و جذبے سے انہیں فائدہ ہوگا۔ ایسے تجزیہ کاروں کی تعداد روز افزوں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریپبلیکنز ایوانِ نمائندگان میں اپنا کنٹرول بحال کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اور سینٹ پر بھی وہ اپنا کنٹرول واپس لے سکتے ہیں ۔

گذشتہ جمعہ کو بے روزگاری کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد و شمار جاری ہوئے وہ بھی ڈیموکریٹس کے لیے مایوس کُن تھے۔ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں اگست میں معمولی سا اضافہ ہوا، اگرچہ روزگار کے نئے مواقع میں معمولی سا اضافہ ہوا۔

جیساکہ صدر اوباما ماضی میں بھی کہتے رہے ہیں، انھوں نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ اقتصادی حالات کی بہتری کی امید کرتےہوئے صبر سے کام لیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’عظیم کساد بازاری کے بعد یہ بدترین اقتصادی انحطاط ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مسئلے کو پلک جھپکتے میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ اقتصادی مشکلات پیدا کرنے میں کئی برس لگے اوران حالات کو ٹھیک کرنے میں جتنا وقت لگے گا وہ ہم سب کی توقعات سے زیادہ ہوگا‘‘۔

معیشت کی غیر یقینی کیفیت سے ڈیموکریٹس کے لیے ملک میں بڑا مشکل سیاسی موڈ پیدا ہو گیا ہے۔ اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے سیاسی مبصر ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ’’ امریکہ کے لوگ اپنی زندگیوں، اپنے مستقبل، اپنے روزگار کے مستقبل، اپنے بچوں کے روزگار کے بارے میں چڑ چڑے ہو گئے ہیں۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ معیشت کی حالت بہتر ہو جائے گی لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ ابھی اس میں وقت لگے گا ۔ ڈیموکریٹس کو آنے والے نومبر کے انتخاب میں اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی‘‘۔

وسط مدتی انتخابات2 نومبر کو ہوں گے۔ ایوان نمائندگان کی تمام 435 نشستیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں جب کہ سینٹ کی 100 میں سے37 نشستوں اور37 ریاستوں کے گورنروں کے لیے بھی انتخاب ہوگا۔

XS
SM
MD
LG