رسائی کے لنکس

سارہ پیلن کا صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر غور


سارہ پیلن
سارہ پیلن

مہینوں کی غیر یقینی کی کیفیت کے بعد، اگلے سال کے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن امیدواروں کی فہرست سامنے آ رہی ہے ۔ کئی ممتاز ریپبلکنز نے 2012 کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایک اہم ریپبلیکن شخصیت نے اب تک اپنے فیصلے کا اعلان نہیں کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ 2012 میں جو ریپبلیکنز صدارتی انتخاب لڑیں گے ان کی فہرست کم و بیش مکمل ہو گئی ہے ۔ توقع ہے کہ ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مِٹ رومنی جو تازہ ترین گیلپ پول میں مسلسل سب سے آگے ہیں، جلد ہی اپنی امیدواری کا باقاعدہ اعلان کر دیں گے۔ دوسرے لوگوں میں جو پہلے ہی اکھاڑے میں اتر آئے ہیں، ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر، نیوٹ گنگرچ، ریاست ٹیکسس کے کانگریس مین ران پال، اور ریاست منی سوٹا کے سابق گورنر ٹِم پالنٹی شامل ہیں جنھوں نے اس ہفتے کے اوائل میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔

انھوں نے کہا’’میں نے جو اقدار سیکھی ہیں وہ امریکی اقدار ہیں۔ میں امریکی خواب سے خوب واقف ہوں کیوں کہ میں اس خواب کی عملی تعبیر ہوں۔ میں صدر کے عہدےکا امیدوار اس لیے ہوں تا کہ اس خوا ب کو زندہ رکھ سکوں۔‘‘

لیکن ریاست الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن اب بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ انھوں نے اب تک صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ قومی سطح پر انہیں شہرت اس وقت حاصل ہوئی تھی جب 2008 میں انہیں صدارت کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار جان مکین کا نائب صدر نامزد کیا گیا تھا۔ ا ن کے بعض حالیہ اقدامات سے ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب کی مہم شروع کرنے والی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، انھوں نے ایریزونا میں ایک گھر خریدا ہے، اگلے مہینے ان کی زندگی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم جاری ہونے والی ہے، اور انھوں نے اپنے اسٹاف میں کچھ ردو بدل کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تمام اقدامات اس بات کی علامت ہیں کہ وہ 2012 کی مقابلے میں حصہ لینے کا اعلان کرنے والی ہیں۔

پیلن مہینوں سے کہتی رہی ہیں کہ اگر حالات مناسب ہوئے تو وہ انتخاب میں حصہ لے سکتی ہیں۔’’اگر میں یہ سمجھوں گی کہ ایسا کرنا ہمارے ملک کے لیئے اور پیلن گھرانے کے لیے صحیح ہو گا، تو میں یقیناً ایسا ہی کروں گی۔‘‘

Evangelical عیسائی ووٹروں اور ٹی پارٹی کی عوامی تحریک کے ارکان میں جو حکومت کا سائز کم کرنے کےلیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وہ بہت مقبول ہیں۔ لیکن پیلن نے ایک مقرِر اور قدامت پسند مبصر کی حیثیت سے خاصا منافع بخش کیریئر بنا لیا ہے ۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی صورت میں، انہیں اس کیریئر کو خیر باد کہنا پڑے گا۔

Quinnipiac یونیورسٹی کے پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ پیلن بلا شبہ قدامت پسندوں میں بہت مقبول ہیں، لیکن ووٹروں میں ان کی شخصیت بہت متنازع ہے۔’’لوگوں کی بڑی تعداد ان کی پر زور حامی ہے، لیکن ووٹروں میں ان کے مجموعی اعداد و شمار اچھے نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ انھوں نے شروع میں امریکی عوام پر جو تاثر چھوڑا تھا وہ اچھا نہیں تھا اور اولین تاثر کو بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘

پیٹر براؤن
پیٹر براؤن

پیلن کے فیصلے سے منی سوٹا کی خاتون رکن کانگریس میشیل بیکمین کے فیصلے پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ وہ بھی انہیں قدامت پسند گروپوں میں مقبول ہیں جو پیلن کو پسند کرتے ہیں۔ ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رِک سنٹورَم کوبھی امید ہے کہ سوشل قدامت پسند ووٹرز ان کی حمایت کریں گے۔ توقع ہے کہ وہ اور ریاست Utah کے گورنر جان ہنٹسمین بھی جو ابھی کچھ دن پہلے تک چین میں امریکہ کے سفیر تھے، جلد ہی باقاعدہ طور پر اپنی امید واری کا اعلان کر دیں گے۔

صدارتی انتخاب کے اس ابتدائی مرحلے میں بیشتر توجہ آئیوا سمیت ان چند ریاستوں پر ہے جن میں روایتی طور پر ابتدائی کاکس یا پرائمری مقابلے ہوتے ہیں۔ مائیک گلوور ایک طویل عرصے سے آئیوا میں ایسو سی ایٹڈ پریس کے سیاسی نامہ نگار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ریپبلیکن ووٹرز کو ایسے قدامت پسند امید وار کی تلاش ہے جو صدر اوباما کا مقابلہ کر سکے ۔ ریپبلیکنز ایسا امیدوار چاہتےہیں جو پارٹی کے بنیادی عقائد کے لحاظ سے قابل ِ قبول ہو لیکن جو عام انتخاب بھی جیت سکے ۔ اس بار ریپبلیکن پارٹی کے سامنے ایک چیلنج یہ ہے کہ ایسا امید وار چنا جائے جو نومبر 2012 میں براک اوباما کو شکست دے سکے ۔

بعض ریپبلیکنز کو مایوسی ہوئی ہے کہ کئی اور ممکنہ امیدواروں نے 2012 کے مقابلےمیں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان میں ریاست انڈیانا کے گورنر مِچ ڈینیئلز, ریاست مسی سپی کے گورنر ہیلی باربؤر، ریاست آرکنساس کے سابق گورنرمائیک ہکابی اور نیو یارک کے بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG