رسائی کے لنکس

عہدہ صدارت کے لیے ریپبلیکن اُمیدواروں کا مباحثہ


عہدہ صدارت کے لیے ریپبلیکن اُمیدواروں کا مباحثہ
عہدہ صدارت کے لیے ریپبلیکن اُمیدواروں کا مباحثہ

رائے عامہ کے جائزوں میں سبقت کے باوجود رومنی کو اب بھی قدامت پسندوں کی مخالفت کا سامنا ہے جو ماضی میں اسقاطِ حمل، آب و ہوا کی تبدیلی اور علاج معالجے کے نظام میں اصلاحات جیسے موضوعات پر ان کے اعتدال پسند موقف کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔

اپنے پہلے بڑے صدارتی مباحثے سے صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ 2012ء کے صدارتی انتخاب کو ملکی معیشت کے بارے میں صدر براک اوباما کی کارکردگی کا ریفرینڈم بنانا چاہتےہیں۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس حکمت عملی پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے اور اس کے نتیجے میں اگلے سال کے انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔

صدارتی مباحثے میں سات ریپبلیکن امیدواروں نے حصہ لیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے فیصلہ دیا کہ ان میں ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر میٹ رومنی اور ریاست منی سوٹا کی خاتون رکن کانگریس میکخلی (Michele Bachmann) کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

رائے عامہ کے جائزوں میں رومنی کو جو سبقت حاصل تھی، اسے حالیہ ہفتوں میں انھوں نے اور مضبوط بنا لیا ہے۔ امریکی معیشت کی بحالی کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جائیں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ اپنے کاروباری پس منظر کا حوالہ دیتےہیں۔ ’’روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے مقام پر رکھا جائے اور نجی شعبے کو اور امریکیوں کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی توانائی اور جوش و جذبے کے ذریعے اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روشن مستقبل کی تعمیر کریں‘‘۔

رائے عامہ کے جائزوں میں سبقت کے باوجود رومنی کو اب بھی قدامت پسندوں کی مخالفت کا سامنا ہے جو ماضی میں اسقاطِ حمل، آب و ہوا کی تبدیلی اور علاج معالجے کے نظام میں اصلاحات جیسے موضوعات پر ان کے اعتدال پسند موقف کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔

بیکہمین نے پیر کے مباحثے کے دوران سرکاری طور پر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ قومی سطح پر رومنی کے مقابلے میں زیادہ مشہور نہیں ہیں، لیکن ان کا ابتدائی تاثر بہت اچھا تھا۔ بیکہمین کو دو اہم گروپ پسند کرتے ہیںEvangelical کرسچیئن اور ٹی پارٹی تحریک کے حامی جو حکومت کا سائز کم کرنا اور صدر اوباما کے علاج معالجے کے قانون کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ بیکہمین نے کہا کہ ’’امریکہ کی صدر کی حیثیت سے میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک میں اوباما کیئر کو منسوخ نہ کردوں۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ ایسا ضرور ہو‘‘۔

پانچ دوسرے امیدواروں نے بھی مباحثے میں حصہ لیا۔ ان میں ریاست منی سوٹا کے سابق گورنر ٹم پوولینٹی ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیٹ جنگیرچ ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رک سینٹورم ریاست ٹیکسس کے کانگریس مین رون پال اور جارجیا کے بزنس مین ہرمین کین شامل ہیں۔

ریپبلیکن امیدواروں نے اپنا زور خطابت ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ صدر اوباما پر تنقید میں صرف کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے سال کی انتخابی مہم میں مرکزی مسئلہ یہی ہو گا کہ صدر اوباما نے معیشت کی بحالی کے لیے کیا کیا۔

رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اوباما کی مقبولیت جس میں گذشتہ مہینے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کچھ اضافہ ہوا تھا جو کچھ کم ہو گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس کی وجہ معیشت کے بارے میں بری خبریں ہیں خاص طور سے بے روزگاری کی شرح میں حالیہ اضافہ ۔ واشنگٹن میں Bipartisan Policy Center کے جان فرٹئیر کہتے ہیں کہ ’’اگر اس سمت میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی اور خراب اقتصادی حالت چار سال تک جاری رہی تو چاہے یہ سلسلہ سابق صدر جارج بش کے زمانے میں ہی شروع کیوں نہ ہوا ہو یہ صدر کے لیے بری علامت ہو گی۔‘‘

سیاسی تجزیہ کار اسٹارٹ روتھنبرگ نے وائس آف امریکہ کے ’انکاونٹر‘ پروگرام میں کہا ’’میرا خیال ہے کہ بڑا زور دار مقابلہ ہو گا۔ میں فرض کر رہا ہوں کہ معیشت کی حالت 2012ء کی گرمیوں میں اور خزاں میں ویسی ہی ہوگی جیسی آج کل ہے‘‘۔

توقع ہے کہ اگلے ہفتے ریاست Utah کے سابق گورنر John جان ہینٹسمین بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن بھی صدارت انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG