رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: خوفناک طوفان کی اُفتاد


دونوں صدارتی امیدوار اِس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ سینڈی طوفان سے اُن ریاستوں میں ووٹروں کی شرکت کس طرح متاثر ہوگی جہاں مقابلہ نہایت سخت ہے

امریکہ کے مشرقی علاقوں پر اس وقت ’سینڈی‘ نامی خوفناک طُوفان کی جو اُفتاد آن پڑی ہے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق اُس نے سیاسی میدان میں ہل چل مچادی ہے اور صدر اوبامہ اور اُن کے ری پبلکن مدّ مقابل مٹ رامنی کو اس کی وجہ سے کئی سیاسی جلسے منسُوخ کرنے پڑے ہیں، جب کہ بعض علاقوں میں ووٹنگ کی ترتیب میں بھی رخنہ پڑ گیا ہے۔

اُدھر, ’واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی‘ کے تازہ ترین استصواب کے نتائج کے مطابق مقابلہ بڑا سخت ہے اور صدر اوبامہ کے 48 پواینٹس کے مقابلے میں مٹ رامنی کو پواینٹس حاصل ہیں اوردونوں امید وار اس کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ سینڈی طوفان سے اُن ریاستوں میں ووٹروں کی شرکت کس طرح متاثر ہوگی جہاں مقابلہ نہائت سخت ہے۔ اور جو اس انتخاب میں فیصلہ کُن ثابت ہو سکتے ہیں، اُن میں اوہیو، نارتھ کیرو لائینا، ورجنیا، اور نُیو ہیم شائیر شامل ہیں اور اوبامہ کے مشیر ڈیوڈ ایکسل راڈ کا کہنا ہے کہ اگر موسم سے ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں فرق پڑتا ہے تواس سے اوبامہ کے دوبارہ منتخب ہونے کا امکان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ طوفا ن کی وجہ سے واشنگٹن ڈی سی اور میری لینڈ میں 6 نومبر سےپہلے ہونے والی ووٹنگ پر اثر پڑا ہے۔

سینڈی طُوفان کی وجہ سے صدر اوبامہ کو ایک نازک اضافی چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ اُنہیں موثّر کمانڈر ان چیف کے فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی بقا کی بھی جنگ اس طرح لڑنی ہے، تاکہ ایسا نہ لگے کہ وُہ طوفان کے مقابلے میں اپنی سیاست پر زیادہ توجّہ دے رہے ہیں۔

امریکہ میں دستور ہے کہ انتخابی سال کے دوران اخبارات دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں، یعنی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امید واروں میں سے اپنے من پسند امید وار کے حق میں ادرائے لکھتے ہیں ۔ اس سال یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اس قسم کی حمائت سے انتخابات کے نتائج پر واقعی اثر پڑتا ہے۔

تجزیہ نگار مٕچل لینڈز برگ ’ لاس اینجلس ٹائمز‘ میں ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ اس قسم کی حمائت کو بڑی وقعت حاصل تھی، لیکن اب پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ لیکن، اس کےباوجود اخبارات اپنا حق آزادی استعمال کرتے ہوئے اپنے من پسند امیدوار کا برابر اعلان کر رہے ہیں۔ تو رواں سال کے امید واروں میں کس امیدوار کی زیادہ اخباروں نے حمائت کی ہے ۔ ایڈیٹر پبلشر نامی ادارے کے اعدادو شُمار کے مطابق 27 اکتوبر تک ری پبلکن امید وار مٹ رامنی کو 112 اخباروں کی حمائت حاصل ہو گئی تھی ، جبکہ صدر اوبامہ کے حق میں لکھنے والے اخبار 84 تھے۔ اس کے برعکس سنہ 2008 کی سابقہ انتخابی مہم میں صدر اوبامہ کو اپنے ریپبلکن حریف جان میکین پر دو کے مقابلے میں تین کی برتری حاصل تھی۔

ایک اور ادارہ ’ دی امیریکن پریذی ڈینسی پراجیکٹ‘ کا ایسا ہی جائزہ صرف 100سب سے زیادہ کثیرالاشاعت اخباروں تک محدود ہے۔اور اس کے مطابق، ان میں سے 33 کی ترجیح صدر اوبامہ ہیں اور 27 کی مٹ رامنی ۔تجزیہ نگار کا اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر اس عمل میں باب تک ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں ری پبلکن پارٹی کی پیش رفت خاصی نمایاں رہی ہے۔اس جائزے کے مطابق، 100 اخباروں میں سے نو ایسے ہیں جو پہلے اوبامہ کے حامی تھے لیکن اب مٹ رانی کے حق میں ہو گئے ہیں۔

اس کے برعکس، ’سین اینٹونیو ایکسپریس نیوز‘ بڑے اخباروں میں سے وُہ واحد اخبار ہے جس نے پچھلے انتخابات میں ری پبلکن جان میکین کا ساتھ دیا تھا، لیکن، اس سال صدر اوبامہ کا حامی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس میں شُبہ نہیں کہ صدر اوبامہ سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، مثلاً امیگریشن کے قوانین کی اصلاح نہ کرنا یاقرضے کے بُحران سے نہ نمٹنا۔لیکن، محض اس بناٴ پر قیادت میں تبدیلی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔خاص طور پر مٹ رامنی کی تمام ٹیکسوں میں 20فیصدکٹوتی کی تجویز کے پیش نظر، اخبار کہتا ہے کہ کسی امید وار کی پالیسیاں صحیح نہیں ہیں۔ لیکن، چونکہ پچھلے چار سال کے دوران براک اوبامہ نے کئی چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے، اس لئے اس اعتبار سے اگلے چار سال قوم کی رہنُمائی کے لئے وُہ بہتر پُوزیشن میں ہیں۔

امریکی اخبار ات میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے سنہ 2008 میں اپنے پسندیدہ امید وار کی کھل کر حمائت کی تھی ، لیکن اب کی بار وُہ غیر جانبداری برت رہے ہیں۔ مثلاًپورٹ لینڈ کا اخبار’ آری گونین ‘ پچھلی بار اوبامہ کا حامی تھا، لیکن اب کی بار اخبار نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ اس سال دونوں امید واروں میں سے کسی نے بھی اُس ریاست میں انتخابی مہم نہیں چلائی ۔

اوبامہ کی حمائت کرنے والوں میں سب سے بڑا اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ ہے۔صدر کی تعریف میں اخبار کا کہنا ہے کہ اُن کی بجٹ پالیسوں کا مقصد طاقت ور لوگوں کو تحفّظ فراہم کرنا نہیں، بلکہ بے بس لوگوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے اپنی انتخابی مہم میں جو پیشرفت اس وقت تک کی ہے ، اُس کیوجہ یہ ہے کہ وُہ وہی بات کرتے ہیں، جواُن کی دانست میں لوگ سُننا پسند کرتے ہیں۔

امریکہ کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت سو اخبار وں میں سے ’ یو ایس اے ٹوڈے‘ اور ’ وال سٹریٹ جرنل ‘ کا دستُور کسی امید وار کی باقاعدہ حمائت کرنا نہیں۔ اگرچہ، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مٹ رامنی کو ’ وال سٹریٹ جرنل‘ کا بھر پُور سہارا حاصل ہے۔
XS
SM
MD
LG