رسائی کے لنکس

امریکہ کا مزید ایک ہزار فوجی مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان


بحیرۂ عرب میں تعینات امریکہ کے طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن کے عرشے کی ایک تصویر (فائل فوٹو)
بحیرۂ عرب میں تعینات امریکہ کے طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن کے عرشے کی ایک تصویر (فائل فوٹو)

امریکہ نے ایران سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر اپنے مزید ایک ہزار فوجی مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

مزید فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان پیر کو عبوری وزیرِ دفاع پیٹرک شناہن نے کیا جن کے بقول ان فوجیوں کو دفاعی مقاصد کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے۔

پینٹاگان سے جاری ایک بیان میں امریکی وزیرِ دفاع نے کہا ہے کہ خلیجِ عمان میں آئل ٹینکرز پر حالیہ حملوں سے ایرانی فوج اور اس کے گماشتوں کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات اور شہریوں کو لاحق خطرات درست ثابت ہو گئے ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ مزید فوجی اہل کار مشرقِ وسطیٰ میں کہاں تعینات کیے جائیں گے۔ بیشتر خلیجی ریاستوں میں امریکہ کے مستقل فوجی اڈے موجود ہیں اور قوی امکان ہے کہ ان فوجی اہل کاروں کو بھی وہیں تعینات کیا جائے گا۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران امریکہ کی جانب سے اپنے مزید فوجی دستوں کی مشرقِ وسطیٰ میں تعیناتی کا یہ دوسرا اعلان ہے۔

اس سے قبل مئی میں بھی متحدہ عرب امارات کے ساحل کے نزدیک چار آئل ٹینکرز پر حملوں کے بعد امریکہ نے 1500 اضافی فوجی اہل کار خطے میں تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس حملے سے قبل امریکہ نے ایران کے ساتھ جاری اپنی کشیدگی کے پیشِ نظر اپنا ایک بحری بیڑا اور مزید میزائل بھی مشرقِ وسطیٰ روانہ کیے تھے۔

امریکہ نے آئل ٹینکرز پر ہونے والے دونوں حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا ہے جس کی تہران حکومت تردید کر چکی ہے۔

امریکہ کی جانب سے ایران کی تیل کی برآمدات پر عائد پابندیاں گزشتہ ماہ موثر ہونے کے بعد سے خطے میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے اور امریکہ اور ایران کے درمیان کسی براہِ راست تصادم کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

امریکہ نے یہ پابندیاں ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کے یک طرفہ انخلا کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر عائد کی تھیں۔

صدر ٹرمپ کی حکومت کا موقف ہے کہ جوہری معاہدے میں سقم ہیں جن کی آڑ میں ایران مسلسل اپنا جوہری اور میزائل پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیکن معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر پانچ عالمی طاقتیں – چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی – مسلسل معاہدے کو موثر رکھنے کے لیے سرگرم ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ایران امریکہ کے نکلنے کے باوجود معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے۔

ایران ان پانچوں ملکوں کو الٹی میٹم دے چکا ہے کہ اگر انہوں نے امریکی پابندیوں سے ایران کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو ایران بھی معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG