رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کا دورہ بھارت، کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کا مطالبہ


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 24 فروری کو دو روزہ سرکاری دورے پر بھارت پہنچ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 24 فروری کو دو روزہ سرکاری دورے پر بھارت پہنچ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

چار امریکی سینیٹرز نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو ایک خط لکھا ہے، جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال اور شہریت بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے پیش نظر حالات کا از سرِ نو جائزہ لینے پر زور دیا گیا ہے۔

مائیک پومپیو کو لکھے گئے خط میں بھارتی کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندیوں، سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی کے علاوہ بھارت میں شہریت بل کے خلاف جاری مظاہروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

جن سینیٹرز نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھا ہے اُن میں صدر ٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے سینیٹر لنزے گراہم بھی شامل ہیں۔ دیگر تین سینیٹرز کرس وان ہولن، ٹوڈ ینگ، رچرڈ جے ڈربن ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھنے والوں میں دو سینیٹرز کا تعلق حکمران جماعت ری پبلکن پارٹی جب کہ دو کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں 70 لاکھ افراد طویل عرصے سے تعلیم، صحت اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم ہیں۔

سینیٹرز کے خط کے مطابق اہم سیاسی رہنماؤں سمیت سیکڑوں کشمیریوں کو پولیس نے حفاظتی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر 24 فروری کو بھارت پہنچ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ بھی اُن کے ہمراہ ہوں گی۔

امریکی سینیٹرز نے بھارت کی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں منظور کیے جانے والے شہریت ترمیمی بل کا بھی تذکرہ کیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری بھارتی حکومت کا ایک اور پریشان کن فیصلہ تھا۔ جس کے ذریعے بعض اقلیتوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ بل بھارت کی سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔

خط لکھنے والوں میں سینیٹر لنزے گراہم بھی شامل ہیں۔ (فائل فوٹو)
خط لکھنے والوں میں سینیٹر لنزے گراہم بھی شامل ہیں۔ (فائل فوٹو)

خط میں امریکی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ بھارتی کشمیر میں حراست میں لیے گئے افراد، مواصلاتی رابطوں پر پابندیوں اور مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لے۔

بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کا حصہ بنا لیا تھا۔ اس ضمن میں بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل 370 کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

اس اقدام سے قبل اور بعد میں بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر میں مواصلاتی رابطوں پر پابندی کے علاوہ اہم کشمیری سیاسی رہنماؤں کو بھی نظر بند کر دیا تھا۔

علاوہ ازیں دسمبر 2019 میں بھارت کی پارلیمان نے شہریت ترمیمی بل منظور کیا تھا۔ جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہب کی بنیاد پر جبر کا شکار ہندو، سکھ،عیسائی، بدھ، جین اور پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے۔ (فائل فوٹو)
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے۔ (فائل فوٹو)

البتہ بھارتی مسلمانوں نے اس اقدام کو اُنہیں نشانہ بنانے کی سازش قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے بھارت میں اب بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی حکومت ان اقدامات کا دفاع کرتی رہی ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ بھارتی آئین مذہبی آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ شہریت بل کی منظوری سے کسی کی بھارتی شہریت ختم کرنا مقصود نہیں بلکہ پڑوسی ممالک میں مذہبی جبر کی شکار اقلیتی برادری کو تحفظ دینا ہے۔

XS
SM
MD
LG