رسائی کے لنکس

امریکہ کے ہوائی سفر کے نئے ضابطوں کا ایک جائزہ


امریکہ میں ٹرانسپورٹیشن سیکورٹی کے انچارج محکمے نے نئے ضابطے جاری کیے ہیں جن کے تحت 14 ملکوں سے آنے اور وہاں جانے والے مسافروں کی جامہ تلاشی ہو گی اور ان کے سامان کو بھی چیک کیا جائے گا۔

ان نئے ضابطوں کا مقصد اس قسم کے واقعات کا سد باب ہے جو کرسمس کے روز ہوا اور جس میں نائجیریا کے ایک نوجوان نے ایمسٹرڈم سے ڈیٹرائٹ آنے والے ایک ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کی کوشش کی۔
جن 14 ملکوں کے مسافروں اور سامان کی اضافی جانچ کی جائے گی ان میں 13 ملک افغانستان، الجزائر، لبنان، ایران، عراق، نائیجیریا، پاکستان، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن مسلمان اکثریت والے ملک ہیں۔ چودھواں ملک کیوبا ہے ۔اس کے علاوہ امریکہ آنے والے تمام مسافروں میں سے کچھ کو کسی ترتیب کے بغیر اضافی اسکریننگ اور جدید مشینوں سے اسکریننگ کے لیے منتخب کیا جائے گا۔
سابق پاکستانی صحافی اور سفارتکار اکبر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان سمیت تمام 14 ملکوں میں اس خبر کا رد عمل اچھا نہیں ہو گا۔ وہ کہتے ہیں’’اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ ان ملکوں میں رہنے والوں کی اکثریت قانون کا احترام کرتی ہے ۔ وہ خود کو دہشت گرد نہیں سمجھتے بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ خود دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ سکیورٹی کے بارے میں حساس ہے۔ لیکن مجھے ان معاملات کا عملی تجربہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے اقدامات سے ہمارے تحفظ میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لوگوں میں ناراضگی اور غصہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
مسٹر احمد آج کل واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں سکیورٹی کے اقدامات کا بڑا تلخ تجربہ ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھی پروفیسرجوڈہ پارلے کے ساتھ ایک کانفرنس میں گئے جس کا مقصد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کا فروغ تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے مسلمان نام سے خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی تھیں۔مسلمانوں میں 20 سے 30 فیصد مردوں کے ناموں میں احمد یا محمد یا ان سے ملتا جلتا کوئی لفظ شامل ہوتا ہے کیوں کہ یہ پیغمبر اسلام کا نام ہے ۔ لیکن یہاں جیسے ہی کوئی یہ نام دیکھتا ہے وہ اس شخص پر شبہ کرنے لگتا ہے۔
عماد الدین احمد فلسطینی امریکی ہیں۔ وہ Minaret of Freedom Institute کے صدر ہیں اور یونیورسٹی آف میری لینڈ میں پڑھاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایئر پورٹ سکیورٹی کے ہاتھوں انھیں بھی پریشانی اٹھانی پڑی ہے ۔ انھوں نے کہا’’ان 14ملکوں کے مسافروں کے حوالے سے زیادہ خطرے کا جو تاثر پایا جاتا ہے اس کے بارے میں امریکی حکومت سب کو ایک لکڑی سے ہانکنے کا طریقہ اپنا رہی ہے اور ان کے درمیان کوئی تمیز نہیں کر رہی ہے ۔ اس کی بجائے حکومت کو انٹیلی جنس کے ذرائع پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جن کی بنیادپر وہ لوگوں کو واچ لسٹ پر رکھتی ہے ۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ صدر باراک اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس25 دسمبر کو جہاز کو بم سے اڑانے کی سازش کو پکڑنے کے لیے کافی شواہد موجود تھے لیکن وہ ان کی اہمیت کو سمجھ نہ سکیں۔ملزم عمر فاروق عبد المطلب کے والد نے Abuja میں امریکی سفارت خانے کے عہدے داروں کو اپنے بیٹے کے انتہا پسندانہ نظریات کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔اس کے باوجود ملزم کس طرح امریکہ جانے والی پرواز میں دھماکا خیز مادہ لےکر سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا؟ صدر اوباما نے اس پورے معاملے کے جائزے کا حکم دیا ہے۔
مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ سینٹر کی سینئر نامہ نگارنادیہ بل باسےکہتی ہیں کہ عرب دنیا کے لوگوں کی نظر میں ایئر لائن سکیورٹی کے نئے ضابطے اُس پیغام کے خلاف ہیں جو صدر اوباما نے مسلمان دنیا کو قاہرہ میں دیا تھا ۔ اس پیغام میں زیادہ کشادہ دلی، مفاہمت کے نئے پلوں کی تعمیر اور اسلام کے لیے زیادہ احترام پر زور دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں’’سکیورٹی تو ہر ایک کے لیے اہم ہے ۔ وہ امریکی ہوں یا غیر امریکی، مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ہر کوئی یہ چاہے گا کہ جب وہ جہاز پر سوار ہو تو اسے یہ اطمینان ہو کہ کوئی اسے بم سے اڑا نہیں دے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو انتہا پسند عناصر کا کھوج لگانے کی کوشش کرنے اور مزید لوگوں کو ناراض نہ کرنے کے درمیان بڑا نازک سا توازن قائم رکھنا پڑتا ہے ۔حفاظتی اقدامات معقول ہونے چاہئیں اور ان میں شہری آزادیوں اور مذہبی جذبات جیسے بہت سے عناصر کو مد نظر رکھا جانا چاہیئے ۔‘‘
پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی پر ایئر پورٹ سکیورٹی کے نئے ضابطوں کے کچھ منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا ۔میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں یہ کہا جا رہا ہے کہ جب امریکی پاکستان آئیں تو ان پر بھی اسی طریقہ کار کا اطلاق کیا جانا چاہیئے۔ اخبارات میں ایسی خبریں چھپی ہیں کہ امریکیوں کی ویزا کی درخواستیں مسترد کی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ جس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اس پر میں بہت نا خوش ہوں کیوں کہ پاکستان اور امریکہ قریبی اتحادی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ معاملہ انسانی انٹیلی جنس کی کارکردگی کا ہے اور اسی شعبے کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔

صدر اوباما نے انٹیلی جنس کی ناکامی کو ٹھیک کرنے کے لیے سفارشات طلب کی ہیں۔ انھوں نے ایئرپورٹ سکیورٹی اور چیکنگ کے طریقوں میں تبدیلی کا وعدہ بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ نو فلائی اور دہشت گردوں کی watch lists میں مناسب تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG