رسائی کے لنکس

افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ نے افغانستان میں تعینات اپنی فوجیوں کی تعداد کم کر دی ہے۔ فوجیوں کی تعداد میں کمی گزشتہ ایک سال کے دوران کی گئی ہے۔

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے پیر کو امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس کی۔ جنرل ملز نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی ہوئی جس کے بعد افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی کل تعداد گھٹ کر 12 ہزار رہ گئی ہے۔

نیوز کانفرنس کے دوران افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع اور وزارت دفاع کے اعلیٰ عہدے دار بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کا انہیں بھی علم تھا۔

افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی کمان جنرل اسکاٹ ملر کے سپرد ہے۔ (فائل فوٹو)
افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی کمان جنرل اسکاٹ ملر کے سپرد ہے۔ (فائل فوٹو)

واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں نائن الیون واقعے کے بعد سے افغانستان میں موجود ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہیں۔

گزشتہ سال افغانستان میں کل 14 ہزار امریکی فوجی تعینات تھے جن کے انخلا کے لیے طالبان سے مذاکرات بھی گزشتہ برس ہی شروع کیے گئے تھے۔

گزشتہ ماہ تک طالبان سے مذاکرات کے نو ادوار مکمل ہو چکے تھے۔ مذاکرات کے دوران طالبان کا یہ مطالبہ رہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائے جب کہ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ پہلے طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کی زمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کے دوران بھی حملے جاری رکھے گئے تھے جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے سے عین قبل مذاکرات منسوخ کر دیے تھے اور انہیں مردہ قرار دیا تھا۔

بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی امریکی فوجیوں کی واپسی کو امریکی صدر کی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار امریکی فوجیوں کی کمی صدر ٹرمپ کی پالیسی کا تسلسل ہے جس میں وہ واضح طور بیرون ملک تعینات امریکی فورسز کو وطن واپس لانے کا کہہ چکے ہیں۔

ان کے بقول اس پالیسی کا اہم نکتہ یہ تھا کہ صدر ٹرمپ دنیا میں امریکہ کا پولیس مین کا کردار کم کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات آپ کو مشرقِ وسطیٰ میں شام کے بعد اب افغانستان میں بھی نظر آرہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے افغان قیادت سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے افغانستان کے لیے اپنی حمایت اور شراکت داری جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر ان دنوں افغانستان کے دورے پر کابل میں موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)
امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر ان دنوں افغانستان کے دورے پر کابل میں موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

افغانستان کے ایک صدارتی ترجمان دعویٰ خان مینا پال نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور مارک ایسپر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، سیکیورٹی اور دیگر کئی اہم امور پر گفتگو ہوئی۔

افغان صدارتی ترجمان کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے لیے مؤثر سیکیورٹی انتظامات کرنے پر افغان سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو بھی سراہا۔

یاد رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے بھی کانگریس کے وفد کے ہمراہ گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔ امریکی قانون سازوں نے افغان قیادت کے ساتھ ملاقات میں افغانستان کی سیکیورٹی، اقتصادی ترقی اور دیگر امور پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG