ترکی سےتعلق رکھنے والا مسلح شخص جس نے سنہ 1981 میں پوپ جان پال کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، ہفتے کے روز ویٹیکن واپس پہنچا، تاکہ آنجہانی پاپائے روم کی قبر پر سفید پھول رکھ سکے۔
ویٹیکن کے ایک ترجمان نے محمد علی آغا کے اِس حیران کُن دورے کا ذکر کیا، جسے، بعدازاں، پوپ جان پال نے معاف کر دیا تھا۔
اپنے مختصر بیان میں، ترجمان نے بتایا کہ سفید گلاب کے دو گلدستے مقبرے پر رکھنے، کچھ لمحات کی خاموشی اختیار کرنے اور استغراقی کیفیت کے بعد، وہ وہاں سے روانہ ہوا۔
شوٹنگ کے تین سال بعد، جان پال نے اٹلی کی جیل جا کر اپنے حملہ آور سے ملاقات کی تھی، اور بعد میں بیچ میں پڑ کر، سنہ 2000میں اُسے رہا کروایا تھا۔
پھر، آغا کو ترکی کے حوالے کیا گیا تھا، جہاں اُنھیں سنہ 1979 میں ترکی کے ایک صحافی کے قتل کے ایک مقدمے میں سزا ہوئی تھی۔ سنہ 2010میں، اُن کی 10 برس کی قید ختم ہوئی۔
پوپ جان پال سنہ 2005میں انتقال کر گئے تھے۔
پاپائے روم پر ہونے والے حملے سے متعلق جنم لینے والے کئی سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں، جیسا کہ اِس حملے کے دیگر ممکنہ ساتھی کون تھے۔
ابتدائی طور پر، آغا نے کہا تھا کہ یہ اُن کا ذاتی فعل تھا۔ تاہم، بعد میں اُنھوں نے اِس کی کڑیاں، بلغاریہ اور سویت یونین کی سازش سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔
سنہ 2006 میں، اطالوی پارلیمانی کمیشن اِس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اِس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ حملے میں سویت یونین ملوث تھا۔ تاہم، اس الزام کو ثابت نہیں کیا گیا۔
کمیشن کے مطابق، پوپ اپنے آبائی ملک، پولینڈ میں جاری محنت کشوں کی تحریک، جس کی قیادت ’سولیڈیرٹی‘ تنظیم کر رہی تھی، کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا کرتے تھے، جس کے باعث، سابق سویت بلاک پوپ کو ایک خطرہ تصور کیا کرتا تھا۔
’سولیڈرٹی‘ کمیونسٹ مشرقی یورپ میں، پہلی آزاد تجارتی یونین تھی، اور وہ کمیونسٹ حکمرانی کی کھل کر مزاحمت کر رہی تھی، جس تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 1991 میں، بی الآخر، سویت یونین کے زوال کا سبب بنی۔