ویت نام کے 100 سے زائد سرگرم کارکنوں نے سرکاری حکام کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں زور دیا ہے کہ وہ چینی صدر شی جنپنگ کو ہنوئی کے دورے کی دی گئی دعوت منسوخ کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ "یہ سفارتی اقدام اس پڑوسی ملک کے خلاف اپنے پر زور موقف پر زور دینے کے لیے ضروری ہے جس نے ویت نامی لوگوں پر جبر کیا اور انہیں کم تر خیال کیا"۔
سماجی کارکن لا ویت ڈنگ جو اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں، نے کہا کہ چین کی طرف سے جنوبی بحیرہ چین میں جزیرے بنانے کی پالیسی نے مجھے اس خط پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔
انہوں نے کہا کہ "چین نے ہمیشہ سے اسپریٹلی اور پاراسلز پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے سمندر میں مصنوعی جزیرے تعمیر کیے ہیں اور متنازع سمندری پانیوں میں ویت نامی ماہی گیروں سے زیادتی کی ہے۔ اس پس منظر میں ویت نام شی کو دورہ کرنے کی دعوت نہ دے"۔
ہنوئی اور بیجنگ نے شی کے دورے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم یہ تصدیق کی گئی ہے کہ انہوں نے ویت نامی رہنما کی طرف سے اس کی دعوت قبول کر لی ہے۔
منحرف بلاگر لی انا ہنگ جو کئی سالوں سے چین مخالف مظاہروں میں شرکت کر چکے ہیں، نے کہا کہ وہ اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ ہنوئی اس دعوت کو منسوخ کرے گا۔
حکومت کی طرف سے سر گرم کارکنوں کے گروپ کے خط پر تاحال کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔
اس درخواست میں ویت نامی رہنماؤں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلپائن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے "چین کو بین الاقوامی عدالت میں لے جائے"۔
گزشتہ سال بھی ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی کے ممتاز ارکان نے بھی اسی طرح کا مطالبہ کیا تھا جب ہنوئی اور بیجنگ کے تعلقات کئی دہائیوں میں کم ترین سطح پر چلے گئے تھے۔