رسائی کے لنکس

بھارتی عوام کیا اب کوہلی کا کھیل نہیں دیکھنا چاہتے ہیں؟


ویراٹ کوہلی
ویراٹ کوہلی

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویراٹ کوہلی کا تنازعات سے پرانا رشتہ ہے۔ فیلڈ کے باہر ان کے اقوال و افعال سرخیاں بٹورتے ہیں۔ تاہم اس بار انھیں ایک تبصرے کے وجہ سے سوشل میڈیا پر بری طرح ٹرول کیا جا رہا ہے۔

حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک پرستار کو، اس بات پر کہ وہ ان کی بلے بازی کے بجائے آسٹریلین اور برطانوی بلے بازوں کی بیٹنگ دیکھنا پسند کرتا ہے، بھارت چھوڑنے کا مشورہ دے دیا۔

در اصل کوہلی نے اپنے 30 ویں یوم پیدائش پر 5 نومبر کو اپنی موبائل ایپ لانچ کی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات کا جواب دیتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کیا۔ اس میں ویراٹ کوہلی کے لیے ایک ٹوئٹ آیا جس میں ایک فین نے انہیں اوور ریٹیڈ بلے باز بتایا اور کہا کہ آپ وہ بلے باز ہیں جس میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے بلے باز اچھے لگتے ہیں۔

اس پر ویراٹ کوہلی کو غصہ آگیا۔ انھوں نے کہا کہ اچھی بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے میں آپ کو بھارت میں نہیں رہنا چاہیے۔ آپ کو کسی اور ملک چلے جانا چاہیے۔ اگر آپ دوسروں سے محبت کرتے ہیں تو بھارت میں کیوں رہتے ہیں۔ آپ مجھے پسند نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ اپنے ملک میں رہتے ہوئے کسی اور کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ آپ کو اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی۔

کوہلی کے اس جواب پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ ملک کے موجودہ ماحول میں ان کے تبصرے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

ایک ٹوئیٹر یوزر نے ایک کلپ بھیجی جس میں وہ یہ کہتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں کہ میرا پسندیدہ بلے باز ہرشل گبس ہے۔ اس وقت گبس جنوبی افریقہ کے جارحانہ اوپننگ بلے باز تھے۔

مذکورہ صارف نے کہا کہ آپ کی دلیل کی بنیاد پر آپ کو جنوبی افریقہ جا کر بس جانا چاہیے۔

2016 کی ایک خبر کے مطابق ویراٹ کوہلی نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ سے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن اور آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر کے علاوہ انگلینڈ ٹیم کے جو روٹ ان کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔ وہ پاکستان کے محمد عامر کو بھی اپنا پسندیدہ بتا چکے ہیں۔

ایک شخص نے ٹوئیٹر پر ویراٹ کوہلی کے اشتہاروں کی تفصیل پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ خود غیر ملکی اشتہار کرتے ہیں۔ ایسے میں انھیں کسی کو مشورہ دینے کا حق نہیں ہے۔

کوہلی کے پرستاروں نے ان کی شادی کے بارے میں بھی ان کو ٹرول کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ خود کو اتنے ہی ہندوستانی مانتے ہیں تو اٹلی میں جا کر شادی کیوں کی۔

ان کے پرستار ان کے سابقہ بیانوں کو انھیں یاد دلا کر بھی ان کو ٹرول کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے محمد عامر کی تعریف کی تھی۔

ان کے پرستاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں کسے نہیں۔ آپ بھارت میں رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی غیر ملکی کھلاڑی کو پسند نہیں کر سکتے۔

معروف کرکٹ کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہلی کا بیان بلبلے کا عکس ہے۔ زیادہ مشہور افراد یا تو پھسل جاتے ہیں یا ایسے بیانات دینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ معروف افراد تضادات کے شکار ہو جاتے ہیں۔ طاقت اور شہرت ان لوگوں کو متوجہ کرتی ہے جو آپ سے متفق ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG