رسائی کے لنکس

پاکستان میں دس سال قید کے بعد امریکہ میں بھی دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا


زیرِ حراست امریکی مسلمان پاکستانی پولیس افسر کے ہمراہ سرگودھا میں عدالت میں پیشی کے بعد۔ فوٹو اے پی 4 جنوری، 2010
زیرِ حراست امریکی مسلمان پاکستانی پولیس افسر کے ہمراہ سرگودھا میں عدالت میں پیشی کے بعد۔ فوٹو اے پی 4 جنوری، 2010

پندرہ برس پہلے امریکی ریاست ورجینیا سے 5نوجوان، افغانستان میں جہاد میں حصہ لینے کے لیے امریکہ سے پاکستان پہنچے لیکن ان کی الوداعی وڈیو دیکھنے کے بعد اہلِ خانہ نے ایف بی آئی سے رابطہ کیا اور انہیں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا۔

اب جب کہ پانچوں پاکستان میں دس برس کی قید بھگت چکے ہیں، امریکہ میں پراسیکیوٹر ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

تاہم ایک ابتدائی سماعت میں ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک جج نے یقینی انداز میں کہا کہ وہ پانچ میں سے ایک کے خلاف الزامات پوری طرح مسترد کر دیں گی کیونکہ پاکستان میں مبینہ طور پر برداشت کیے گئے تشدد اور قیدِ تنہائی کے باعث اس کی ذہنی حالت ایسی نہیں کہ اس پر مقدمہ چلایا جائے۔

امریکی شہری کو دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا
امریکی شہری کو دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا

امریکی ڈسٹرکٹ جج لیونی برنکیما نے سوال اٹھایا ہے کہ جب ان پانچوں پر پاکستان میں مقدمہ چل چکا ہے اور وہ پہلے ہی سزا بھگت چکے ہیں اور اب امریکی حکومت ان پر انہی الزامات کے تحت دوبارہ مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کی کیا افادیت ہے اور یہ کہ اس کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔

ان پانچ نوجوانوں وقار خان، احمد منی، رامے زمان، عمار یمیر اور عمر فاروق پر ایف بی آئی کی توجہ اس وقت ہوئی جب ان کے گھر والوں نے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔

2009 کے اواخر میں یہ پانچوں امریکہ سے پاکستان روانہ ہو گئے اور اپنے پیچھے گیارہ منٹ کی ایک وڈیو چھوڑ گئے کہ وہ مسلم سرزمین کے دفاع کے لیے جہاد میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ ان کے منصوبے کا علم ہونے پر ان کے گھر والوں نے انہیں روکنا چاہا اور کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز نامی مسلم شہری حقوق کی تنظیم سے رابطہ کیا اور ایک وکیل نینا گنزبرگ اور پھر ایف بی آئی سےبھی مدد چاہی مگر وہ پانچوں پاکستان پہنچ چکے تھے۔

ایف بی آئی کے ایک حال ہی میں کھولے جانے والے اعترافی بیان کے مطابق پاکستان میں انہوں نے ایسے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا جو ان کی افغانستان جانے میں مدد کر سکیں مگر متعدد بار انہیں اس میں ناکامی ہوئی۔ تاہم ایک شخص نے اس شرط پر ان کی مدد کی حامی بھری کہ پاکستان میں ان کے خاندان کا کوئی فرد ان کی ضمانت دے۔

مگر ایف بی آئی کے علم میں آنے کے نو دن بعد، نو دسمبر 2009 کو انہیں سرگودھا میں گرفتار کر لیا گیا۔

ان پانچوں میں سے بیشتر نے ایف بی آئی کے ایجنٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ افغانستان پہنچ کر امریکی فوجیوں کے خلاف لڑنا چاہتے تھے۔

پاکستان میں گرفتاری کے بعد ان پر مقدمہ چلا اور انہیں دس سال قید کی سزا ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گرفتاری کے بعد ان پر تشدد کیا گیا مگر پاکستانی حکام نے ان الزامات کی تردید کی۔

پاکستان میں اپنی سزا پوری کرنے کے بعد امریکی حکومت نے کوشش کی ہے کہ انہیں امریکہ واپس لا کر ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ اب تک ان میں سے تین کو امریکہ واپس بھیجا گیا ہے جن میں یمیر، زمان اور منی شامل ہیں۔ چوتھا ابھی پاکستان میں زیرِ حراست ہے اور پانچواں وہیں کہیں موجود ہے۔

پاکستان میں گرفتاری کے وقت یمیر کی عمر صرف 18 سال تھی۔ اس کی وکیل گنز برگ کا کہنا ہے کہ وہ ان سب میں کم عمر تھا اورناروا سلوک اور قیدِ تنہائی نے ا س کی ذہنی حالت بگاڑ دی ہے۔ وہ سارا وقت ایک کرسی پر بیٹھا رہتا ہے اور کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ کوئی کھلائے تو کھانا کھا لیتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کئی ماہ اسپتال میں رہنے اور علاج کے باوجود اس کی حالت بہتر نہیں ہوئی۔

تاہم جج برنکیما کے مطابق یمیر کی وکیل کی جانب سے اپیل ہوتے ہی وہ اس کے خلاف الزامات مسترد کر دیں گی۔

باقی چاروں نوجوانوں کے بارے میں بھی وکیل گنز برگ کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ اپیل کے بعد انہیں بھی مقدمے کی سماعت سے بریت مل جائے گی۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایک ہی جرم میں دو بار مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا مگر چونکہ ایک مقدمہ پاکستان میں چلا اس لیے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دیگر نکات کے علاوہ اس بنیاد پر اپیل کریں کہ ان پر مقدمہ تیزی سے نہیں چلایا گیا۔

تاہم وکیل گنز برگ کا کہنا ہے کہ یہ پانچوں اب مزید سزا کے مستحق نہیں کیونکہ ان کے الفاظ میں،" پاکستان میں دس سال کی قید امریکہ میں 30 سال کی جیل کے برابر ہے۔" اور وہ کافی بھگت چکے۔

( اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG