رسائی کے لنکس

اسپینش فلو اور کرونا وائرس: ایک صدی میں کیا بدلا، کیا نہیں بدلا؟


سائنس کے شعبے میں ایک صدی کی غیر معمولی ترقی کے باوجود 2020 میں بہت کچھ ویسا ہے، جیسا 1918 میں تھا۔

اسپینش فلو اور کووڈ 19 کے درمیانی عرصے میں دنیا کو وائرسوں کے بارے میں علم ہوا، کئی بیماریوں کا علاج دریافت ہوا، موثر ویکسینیں بنائی گئیں۔ معلومات کی تیز ترین ترسیل ممکن ہوئی اور صحت عامہ کے شاندار نظام قائم کے گئے۔

اس کے باوجود انسان وہیں کھڑا ہے۔ منہ پر ماسک لگائے۔ اور متعدی مرض کی روک تھام سے پہلے لاکھوں کو مرتا دیکھتے ہوئے۔

1918 کی طرح عوام اپنے رہنماؤں کے کھوکھلے وعدے سن رہے ہیں جبکہ اسپتال اور مردہ خانے بھرتے جا رہے ہیں اور بینک اکاؤنٹس خالی ہو رہے ہیں۔ قرنطینہ کا قدیم زمانہ واپس آگیا ہے اور اس کے ساتھ عطائیوں کے مشورے بھی۔ 1918 میں وہ ان کا مشورہ تھا کہ اپنے سینے پر پیاز ملیں۔ اور اب صدر ٹرمپ نے تجویز دی کہ کیوں نہ جراثیم کش دوا کے انجکشن لگائے جائیں۔ اگرچہ بعد میں انھوں نے کہا کہ وہ مذاق کر رہے تھے۔ لیکن حقیقت میں ان کی بات پر ہنسنے کے بجائے لوگ ہکابکا رہ گئے تھے۔

1918 میں بھی کسی کے پاس ویکسین، علاج یا شفایابی کا نسخہ نہیں تھا۔ تب عالمگیر وبا نے ایسی تباہی مچائی تھی کہ دنیا بھر میں پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ہتھیار موجود نہیں تھا۔

البتہ ماڈرن سائنس نے نئے کرونا وائرس کا فوری طور پر پتا لگا لیا، اس کا جینیاتی کوڈ معلوم کرلیا اور تشخیص کا طریقہ ڈھونڈ لیا۔1918 میں ایسا ممکن نہیں ہوا تھا۔ اب لوگوں کے پاس موقع ہے کہ وہ خطرے سے دور رہیں۔ جن ملکوں نے فوری ٹیسٹ بنا لیے، ان ملکوں کے عوام زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

لیکن بیمار ہونے سے کیسے بچیں اور بیمار ہوجائیں تو کیا کریں؟ ان طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک اور بات جو نہیں بدلی، وہ امریکی صدور کا وبا کی ابتدا میں اس سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ نہ ہونا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ملک میں وبا کے آنے سے پہلے ہی کامیابی کا اعلان کر ڈالا تھا اور ان کے بعد کے بیانات پر بھی تنقید کے لیے مخالفین کے پاس بہت کچھ ہے۔ 1918 میں امریکی صدر ووڈرو ولسن کی بنیادی ناکامی ان کی خاموشی تھی۔

تاریخ داں بتاتے ہیں کہ صدر ولسن نے عوامی سطح پر ایک بار بھی اس بیماری کا ذکر نہیں کیا، جبکہ بہت بڑی تعداد میں امریکی ہلاک ہو رہے تھے اور وہ خود بھی اس میں مبتلا ہوئے۔

کرونا وائرس کی طرح اسپینش فلو بھی جانوروں سے انسانوں کو لگا، دونوں کے منتقل ہونے کا طریقہ بھی یکساں ہے، ایک جیسی پیتھالوجی اور دونوں ہی پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔ تب بھی اہم حفاظتی تدابیر میں سماجی فاصلہ، ہاتھ دھونا اور ماسک پہننا شامل تھا اور آج بھی ماہرین صحت ان پر زور دے رہے ہیں۔

لیکن 1918 اور 1920 کے وائرسوں میں کچھ اہم فرق بھی ہے۔ اسپینش فلو خاص طور پر 20 سے 40 سال کے صحت مند افراد کو نشانہ بناتا تھا۔ یہ وہی لوگ تھے جو پہلی جنگ عظیم کی افواج کا اہم حصہ تھے۔

نوجوان فوجی اور ملاح جنگی کیمپوں اور خندقوں میں ساتھ رہے۔ جہازوں میں بھر کے اپنے اپنے ملک پہنچے۔ جنگ جیتنے کی خوشی میں بڑے قافلے نکلے اور تقریبات ہوئیں۔ وائرس پھیلتا گیا اور قتل عام کرتا گیا۔

اس وبا میں جو لوگ ہلاک ہوئے، ان میں فریڈرک ٹرمپ شامل تھے یعنی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نانا۔ جو لوگ بیمار ہوئے لیکن شفایاب ہوگئے، ان میں امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے جنگ کے زمانے کے رہنما، برطانیہ اور اسپین کے بادشاہ اور مستقبل کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ شامل تھے جو ان دنوں بحریہ کے نائب وزیر تھے۔

بڑے لوگ بچ گئے۔ لیکن لاکھوں عام لوگ نہیں جو تنگ گھروں میں رہتے تھے، بسوں میں سفر کرتے تھے اور کارخانوں میں کام کرتے تھے۔ وہ 1918 کے امریکی سرجن جنرل روپرٹ بلو کے مشوروں پر عمل نہیں کرسکے، جنھوں نے کہا تھا کہ ہجوم والے مقامات سے دور رہیں۔ کھلی ہوا کے لیے کھڑکیاں کھول کے رکھیں۔ جس قدر ممکن ہو، تازہ ہوا میں سانس لیں۔

اندازہ ہے کہ اسپینش فلو میں دنیا کی ایک تہائی آبادی مبتلا ہوئی اور 6 لاکھ 75 ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق، کووڈ19 سے اب تک دنیا میں ڈھائی لاکھ ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں 70 ہزار امریکی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG