رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا بہت مشکل ہے: امریکی ماہر


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا مشکل ہو چکا ہے۔

یونیورسٹی کے پروفیسر برائے وبائی امراض مارک لپ سٹچ نے جرمن میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا نہیں خیال کہ اب کرونا وائرس کو روکا جا سکتا ہے۔

اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی انفیکشن کے پھیلنے کا ریٹ اوسطاً دو ہو، یعنی ایک مریض سے یہ دو دوسرے افراد میں منتقل ہو رہا ہو۔ تو ایسی وبا کو مکمل طور پر روکنے سے قبل یہ دنیا کی آدھی آبادی کو متاثر کر چکی ہو گی۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ 'سارس' اور کرونا وائرس میں یہ فرق ہے کہ سارس میں جن مریضوں کی علامات ظاہر ہو چکی تھیں ان کے ذریعے ہی بیماری دوسرے افراد میں منتقل ہو رہی تھی۔ مگر کرونا وائرس ان افراد میں بھی پایا جاتا ہے جن کے جسم میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ اور وہ افراد اسے آگے دوسرے افراد میں منتقل کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

جرمن میگزین 'ڈر سپیگل' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت سے افراد تو ابھی رپورٹ ہی نہیں ہوئے ہیں اور اس لیے یہ کہنا کہ اس وبا سے کتنے افراد کی جان جا سکتی ہے قبل از وقت ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ اب اس وبا کا جرمنی یا امریکہ میں رکنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے بہت سے کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں کسی دوسرے ملک سے وائرس کے منتقل ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ یہ مقامی طور پر ہی اب لوگوں میں منتقل ہو رہا ہے۔

انہوں نے چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی۔

1918 کے 'سپینش فلو' کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکی شہر فلاڈلفیا نے فلو کی شہر میں آمد کے دو ہفتے بعد سخت اقدامات اٹھائے جب کہ امریکی شہر سینٹ لوئیس نے عوامی مقامات پر لوگوں کے جمع ہونے پر دوسرے دن ہی پابندی لگا دی۔ سینٹ لوئیس میں ہلاکتوں کی تعداد فلاڈلفیا کے مقابلے میں آٹھ گنا کم تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کے وقتی طور پر تھمنے کے باوجود عوامی مقامات پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی قائم رکھنی چاہیے ورنہ یہ وبا دوبارہ پھیلنے کا خدشہ رہے گا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کرونا وائرس انسانوں کے درمیان اب لمبے عرصے تک رہے گا۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے ایک یا دو برس میں لوگوں میں اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG