رسائی کے لنکس

تپ دق سے کم وقت میں چھٹکارہ ممکن ہے


تپ دق دنیا کے سب سے زیادہ ہلاکت خیز امراض میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ مرض اب قابل علاج ہے لیکن اس کے باوجود تپ دق کی ہلاکتوں کا گراف اونچا ہونے کی وجہ ہے کہ اس کے علاج پر طویل عرصہ لگتا ہے۔ جو چھ مہینوں سے لے کر بعض واقعات میں ایک سال سے زیادہ مدت تک پھیل جاتا ہے۔

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسا طریقہ موجود ہے جس کی مدد سے تپ دق کے علاج کے دورانیے میں کافی کمی کی جا سکتی ہے اور وہ بھی بہت کم قیمت پر۔

عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تپ دق سے ہلاک ہونے والے 95 فی صد افراد کا تعلق غریب اور پس ماندہ طبقوں سے ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ تپ دق کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی اہم دوائیں اس مرض کے جراثیموں پر اس وقت حملہ کرتی ہیں جب ان کی تعداد میں اضافہ ہو تا ہے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ جراثیموں کو ایک مختصر حصہ غیرموثر شکل اختیار کرکے دوا کے اثرات سے بچ جاتا ہے۔

پاکستان دنیا بھر میں ان ملکوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، جہاں ٹی بی کے جراثیم اپنے اندر دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کر کے علاج کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیتے ہیں۔

نیویارک کے البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کے مائیکروبیالوجسٹ ولیم جیکبس کہتے ہیں کہ جراثیموں کے مختصر گروہ دوا کے ہلاکت خیز اثرات سے بچنے کے لیے غیر فعال ہو جاتے ہیں اور خوابیدگی کی حالت میں چلے جاتے ہیں لیکن وہ مرتے نہیں ہیں اور اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔ ان میں دوا کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ تپ دق کے علاج میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب مریض کچھ عرصے یہ سمجھ کر کہ وہ ٹھیک ہو رہا ہے، دوا لینا چھوڑ دیتا ہے تو یہ غیر فعال اور خوابیدہ جراثیم دوبارہ متحرک ہو کر اپنی آبادی میں اضافہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے مرض دوبارہ مریض پر غلبہ پا لیتا ہے۔

دوا کا استعمال ترک کرنے سے، بچ جانے والے جراثیم اپنے اندر دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں جس سے علاج میں دشواری پیش آتی ہے اور مرض پر قابو پانے میں کہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے علاج میں چھ مہینے لگتے ہیں لیکن جراثیموں کے اندر مزاحمت پیدا ہونے کی صورت میں دو سال تک زیادہ سخت دوائیں کھانی پڑتی ہیں۔

جیکبس اور ان کی ٹیم نے حادثاتی طور پر ایک ٹیسٹ ٹیوب تجربے کے دوران یہ د ریافت کیا کہ وٹامن سی جیسا اینٹی آکسیڈنٹ ٹی بی کے بیکٹریا کو خوابیدہ حالت میں جانے سے روک دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب پہلی بار ہم پر یہ انكشاف ہوا تو ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے متعلق ہم اس سے پہلے زیادہ نہیں جانتے تھے۔ اور اگر یہ عام سی دوا واقعی ٹیسٹ ٹیوب کی طرح کام کرے تو یہ بہت ہی فائدہ مند پیش رفت ہے۔

ابھی تک وٹامن سی کی اس خوبی کا چوہوں پر تجربہ کیا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

چوہوں کو کئی ہفتوں تک ٹی بی کی معمول کی دوا کے ساتھ وٹامن سی کی زیادہ طاقت کی خوراک بھی دی گئی، جس سے ان کے پھیپھڑوں میں بیکٹیریا کی تعداد ان چوہوں کے مقابلے میں دس گنا کم دیکھی گئی جنہیں ٹی بی کی دوا کے ساتھ وٹامن سی نہیں دیا گیا تھا۔

جیکبس کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹی بی کی دوا کے ساتھ وٹامن سی کا استعمال بھی کیا جائے تو اس موذی مرض کے علاج کے دورانیے کو کم کیا جا سکتا ہے۔

نیوجرسی میں قائم رٹگرز میڈیکل کے ڈیوڈ ایلینڈ کہتے ہیں کہ تپ دق کے علاج کے ساتھ وٹامن سی کا استعمال محفوظ ہے اور اس کے عام طور پر منفی اثرات بھی نہیں ہوتے۔ اس لیے ٹی بی کا علاج کرانے والے مریضوں کو جلد صحت یاب ہونے کے لیے وٹامن سی کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG